روس سے تیل کی خریداری پر امریکہ کی بھارت پر شدید برہمی، تجارتی تعلقات خطرے میں ڈالنے کا انتباہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بھارت کی جانب سے روس سے خام تیل کی خریداری پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے نہ صرف عالمی برادری کے مفادات کے منافی قرار دیا ہے بلکہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان مستقبل کے تجارتی معاہدوں کو بھی غیر یقینی قرار دے دیا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت، جو خود کو ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، روس سے خام تیل خرید کر اسے ریفائن کرکے عالمی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدام بین الاقوامی سطح پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں اور امریکی اتحادیوں کی مشترکہ پالیسی کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ بھارت جیسے اہم شراکت دار نے ایسے وقت میں روس کے ساتھ تیل کی تجارت جاری رکھی جب دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف یک زبان ہو چکی ہیں۔ بھارت کی یہ پالیسی ہمیں سخت مایوس کر رہی ہے اور یہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان معاشی اشتراک میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔”
بھارت کی مؤقف کی وضاحت اور امریکی برہمی
بھارت نے اپنے دفاع میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متنوع ذرائع پر انحصار کرتا ہے اور روس سے سستا خام تیل خریدنا ملک کی اقتصادی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ "ہم کسی ایک ملک کے دباؤ میں آ کر اپنی توانائی کی ضروریات کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔”
تاہم، امریکی وزیر خزانہ نے بھارت کی اس وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی ملک خود کو عالمی سطح پر ایک ذمہ دار شراکت دار کہلانا چاہتا ہے تو اسے اپنے فیصلوں میں بھی اجتماعی اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بھارت نے روس سے تیل کی خریداری کے موجودہ طرزِ عمل کو جاری رکھا تو امریکہ نہ صرف آئندہ تجارتی معاہدوں پر نظرِ ثانی کرے گا بلکہ بھارت کی برآمدات پر اضافی محصولات (ٹیرف) بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا دو ٹوک پیغام: 100فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا ہوگا
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعلامیے کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 14 جولائی کو روس سے تیل خریدنے والے ممالک کو واضح انتباہ دیا تھا کہ اگر وہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی نہیں کرتے تو انہیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس انتباہ کے بعد بھارتی سرکاری آئل ریفائنریز نے عارضی طور پر روسی خام تیل کی خریداری روک دی تھی، تاہم کچھ رپورٹس کے مطابق، بعض پرائیویٹ کمپنیاں اب بھی بالواسطہ طریقوں سے روسی تیل کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ بھارت روسی تیل کو "ریفائن شدہ پروڈکٹس” کی صورت میں عالمی منڈی میں مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر لگائی گئی پابندیوں کا عملی مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
بھارت کا عالمی تیل مارکیٹ میں کردار
رپورٹس کے مطابق بھارت دنیا کا تیسرا بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے اور روسی سمندری خام تیل کا سب سے بڑا خریدار بھی بن چکا ہے۔ یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد، بھارت نے روسی خام تیل کی خریداری میں ریکارڈ اضافہ کیا ہے، کیونکہ روس اسے رعایتی نرخوں پر فروخت کرتا رہا ہے۔
2024 کے اختتام تک بھارت روزانہ 1.5 ملین بیرل روسی خام تیل خرید رہا تھا، جو کہ کورونا وبا سے قبل کی سطح سے تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ اس سستے تیل کو بھارت کے مغربی ساحل پر موجود ریفائنریز میں پروسیس کرکے دوبارہ یورپ، ایشیا اور دیگر خطوں کو برآمد کیا جاتا ہے۔
بھارت-امریکہ تجارتی تعلقات پر اثرات
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی روس سے بڑھتی ہوئی توانائی درآمدات نے امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کو نازک مرحلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارتی حجم 200 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
اگر واشنگٹن کی جانب سے بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کیے گئے یا تجارتی معاہدے معطل کیے گئے تو اس کا اثر نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشتوں پر پڑے گا بلکہ اسٹریٹیجک شراکت داری بھی متاثر ہو سکتی ہے، جو انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔
عالمی برادری کا ردعمل
یورپی یونین، جاپان اور آسٹریلیا جیسے امریکی اتحادیوں نے بھی بالواسطہ طور پر بھارت کی روس سے تیل کی خریداری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، تاہم کسی ملک نے ابھی تک کھل کر بھارت کے خلاف مؤقف اختیار نہیں کیا۔
بین الاقوامی اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر بھارت نے اپنی موجودہ پالیسی پر نظرِ ثانی نہ کی تو مستقبل میں اسے جی-20، جی-7 اور دیگر عالمی اقتصادی فورمز پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھارت کے لیے کڑا وقت
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کو اپنی توانائی ضروریات اور جغرافیائی سفارتی تعلقات کے درمیان ایک مشکل توازن قائم کرنا ہوگا۔ روس سے سستا تیل حاصل کرنا وقتی فائدہ ضرور دے سکتا ہے، لیکن امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی ناراضی، طویل المدتی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دیا گیا سخت پیغام اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن نئی دہلی سے ایک واضح اور اصولی مؤقف کی توقع رکھتا ہے۔ بھارت کے اگلے اقدامات یہ طے کریں گے کہ آیا وہ روس کے ساتھ تعلقات کو فوقیت دیتا ہے یا امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔