این ایف سی ایوارڈ 2025 — وفاقی حصے، صوبائی اخراجات اور معاشی بحران پر اہم سوالات
قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ: ایک تجزیاتی جائزہ
پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم ایک نہایت حساس اور اہم معاملہ ہے۔ آئینِ پاکستان اس مقصد کے لیے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا ایک واضح اور باقاعدہ طریقہ کار مہیا کرتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کی رو سے وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کیے گئے ٹیکس ریونیو کو ایک طے شدہ فارمولے کے تحت صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے انتظامی، ترقیاتی، اور عوامی خدمات کے اخراجات پورے کر سکیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں یہ نظام شدید تنقید اور نظرثانی کا موضوع بنا ہوا ہے۔
موجودہ تناظر میں این ایف سی ایوارڈ کی حیثیت
این ایف سی ایوارڈ کا بنیادی مقصد مالیاتی وفاقیت کو فروغ دینا اور تمام صوبوں کو ان کے مالی وسائل کے مطابق ترقی کا یکساں موقع فراہم کرنا ہے۔ 2010 کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق کا حصہ 42.5 فیصد جبکہ صوبوں کا حصہ بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، ایوارڈ میں محض آبادی کو تقسیم کا واحد معیار بنانے کے بجائے دیگر عناصر جیسے کہ پسماندگی، محصولات کی پیداواری صلاحیت، اور علاقوں کا رقبہ بھی شامل کیا گیا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام متعدد چیلنجز کا شکار ہو چکا ہے۔
وفاقی بیانیہ اور قرضوں کا جال
حالیہ برسوں میں وفاقی اشرافیہ کے بعض حلقوں کی طرف سے یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ وفاق کا محدود حصہ (42.5 فیصد) دراصل ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کی ایک بڑی وجہ ہے، اور اسے بڑھایا جانا ناگزیر ہے۔ اس بیانیے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ صوبے اپنی ضرورت سے زیادہ اخراجات کر رہے ہیں، جس سے وفاق مالی دباؤ کا شکار ہے۔
تاہم، زمینی حقائق اس تصور کی نفی کرتے ہیں۔ ملک کی تقریباً 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، یعنی ان کی یومیہ آمدنی 4.2 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ صوبے فضول خرچی کے مرتکب ہو رہے ہیں، ایک غیر حقیقی دعویٰ معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر ریاستی اخراجات مسلسل کم ہو کر جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا میں صحت پر اوسطاً 3.25 فیصد اور تعلیم پر 4 فیصد خرچ ہوتا ہے۔
مالی بحران کی اصل وجوہات
ملک کا مجموعی قرضہ 76 کھرب روپے کی حد کو چھو رہا ہے، اور مالی گنجائش مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنے مالیاتی بحران کی حقیقی وجوہات کا ادراک کرنا ہوگا۔ سب سے اہم مسئلہ ریونیو کی کم سطح ہے، جس کی بڑی وجہ ریاست کی ٹیکس وصولی میں ناکامی اور اشرافیہ پر مؤثر ٹیکس کا نفاذ نہ ہونا ہے۔
ایک واضح مثال پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (PSEs) کے سالانہ 6 کھرب روپے کے خسارے ہیں۔ اسی طرح سستی مقامی گیس کی پیداوار میں کمی، جو مہنگی درآمدی آر ایل این جی کے دباؤ کی وجہ سے ہو رہی ہے، مالی بوجھ میں اضافہ کرتی ہے۔ ان تمام عوامل کی روشنی میں ہمیں بجائے این ایف سی فارمولے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے، ان پالیسی اور انتظامی ناکامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
این ایف سی فارمولے کی خامیاں
ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں اگرچہ کچھ مثبت تبدیلیاں کی گئیں، مثلاً آبادی کے وزن کو 100 فیصد سے کم کر کے 82 فیصد کر دیا گیا، لیکن مجموعی ڈھانچے میں بڑی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ اس فارمولے کے تحت صوبہ پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبرپختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد حصہ دیا جاتا ہے۔
یہ تقسیم اب کئی حوالوں سے متنازع بن چکی ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے چھوٹے اور پسماندہ صوبے اس فارمولے کو غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ موجودہ ڈھانچہ وفاق کے لیے سیاسی اور معاشی خطرات کو جنم دے رہا ہے، اور اس پر نظرثانی ناگزیر ہو چکی ہے۔
صوبائی ریونیو کی صورتحال
صوبوں کی اپنی ریونیو جمع کرنے کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ مالی سال 2025 میں تمام صوبوں نے صرف 1 کھرب روپے کے لگ بھگ ریونیو جمع کیا، جس میں سے 63 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (GST) تھا۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ زراعت پاکستان کی معیشت کا 24 فیصد حصہ ہے۔
اسی طرح نان ٹیکس ریونیو کی صورتحال بھی قابلِ رحم ہے، جو صرف 313 ارب روپے رہا۔ ریکوڈک، معدنیات، اور صوبائی ای اینڈ پی کمپنیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ہمارے قیمتی وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا۔
ممکنہ اصلاحات: ایک راہِ عمل
موجودہ مالی بحران سے نکلنے کے لیے محض این ایف سی ایوارڈ میں رد و بدل کافی نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ریونیو کے دائرہ کار کو وسیع کرنے، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر زرعی آمدنی ٹیکس کو اس کے حقیقی جی ڈی پی حصہ کے مطابق نافذ کیا جائے، جو محتاط اندازوں کے مطابق 800 ارب سے 1 کھرب روپے سالانہ آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ساتھ ہی این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ صوبوں کے درمیان افقی تقسیم میں زیادہ انصاف پر مبنی ہو۔ وسائل کی تقسیم میں صرف آبادی کے بجائے دیگر اہم عوامل جیسے انسانی ترقی، غربت کی شرح، وسائل کی پیداواری صلاحیت اور انفراسٹرکچر کی کمی کو بھی شامل کیا جائے۔
ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان ایک نئے مالیاتی عمرانی معاہدے کی طرف بڑھے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ صرف مالی وسائل کی تقسیم کا ایک فریم ورک ہے بلکہ یہ وفاق پاکستان کے وجود کا ضامن بھی ہے۔ اسے کمزور یا متنازع بنانے کے بجائے اسے مزید مضبوط، شفاف اور منصفانہ بنایا جانا چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہم قومی مفاد میں سیاسی ترجیحات سے بالاتر ہو کر ایک ایسا مالیاتی نظام تشکیل دیں جو ملک کی تمام اکائیوں کو برابری کی سطح پر ترقی کا موقع دے، اور پاکستان کو غربت، پسماندگی اور قرضوں کے جال سے نکال کر خود کفالت اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔











