این ایف سی ایوارڈ پر سوالات – پاکستان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اصلاحات کی ضرورت
این ایف سی ایوارڈ اور وسائل کی تقسیم: کیا پاکستان کا مالیاتی نظام ناکام ہو رہا ہے؟
پاکستان میں ہر سال مون سون کی بارشیں نہ صرف قدرتی آفات بلکہ حکومتی ناکامیوں کو بھی بے نقاب کرتی ہیں۔ خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر کی حالت زار، جہاں ہر بارش کے بعد سڑکیں جھیلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، نکاسیٔ آب کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے اور شہری شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں، ایک مرتبہ پھر اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ ملک میں وسائل کی تقسیم کا موجودہ نظام، یعنی نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ، کیا واقعی مؤثر ہے؟
این ایف سی ایوارڈ کا مقصد اور قانونی حیثیت
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت این ایف سی ایوارڈ کا بنیادی مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ اس کا مقصد صوبائی حکومتوں کو اس حد تک مالی خود مختاری دینا ہے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات جیسے صحت، تعلیم، صاف پانی، صفائی، اور انفراسٹرکچر کی بہتر فراہمی یقینی بنا سکیں۔
2009-10 میں دیے گئے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو ایک بڑا سنگ میل سمجھا گیا تھا، جس میں صوبوں کا حصہ مجموعی قومی محاصل میں 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا گیا۔ اس ایوارڈ کو 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ جوڑا گیا، جس کے تحت بہت سے شعبے جیسے تعلیم، صحت اور مقامی حکومتیں صوبوں کو منتقل کر دی گئیں۔
نظریہ اور حقیقت کا فرق
اگرچہ این ایف سی ایوارڈ کا مقصد وفاقی نظام کو مستحکم کرنا اور مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا تھا، لیکن زمینی حقائق اس مقصد کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ صوبوں کو دیے گئے اختیارات اور مالی وسائل کا مؤثر استعمال دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ ترقیاتی بجٹ یا تو استعمال نہیں ہوتے یا ناقص منصوبہ بندی کی نذر ہو جاتے ہیں، جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات، خاص طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن، بجٹ کا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی، جو ملک کا سب سے بڑا مالیاتی، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے، ہر سال مون سون کے بعد آفت زدہ علاقہ دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ یہ شہر قومی خزانے میں سب سے بڑا حصہ ڈالنے والا ہے، لیکن بدلے میں اسے انفراسٹرکچر اور بلدیاتی سہولیات کے حوالے سے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کا موجودہ فارمولا: ایک غیر منصفانہ تقسیم؟
موجودہ این ایف سی ایوارڈ کا فارمولا بھی تنقید کی زد میں ہے۔ اس میں 82 فیصد وزن آبادی کو دیا گیا ہے، جبکہ غربت، پسماندگی، محصولات جمع کرنے کی صلاحیت، اور شہری و دیہی تقسیم کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ بلوچستان جیسے صوبے اس فارمولے کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں، جبکہ سندھ کا مؤقف ہے کہ کراچی جیسے شہر کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس خیبر پختونخوا اور پنجاب جیسے صوبے بھی اس تقسیم سے مطمئن نہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں ان سے زیادہ محصولات جمع کیے جا رہے ہیں، مگر ان کو ان کے مطابق واپس نہیں ملتا۔ اس غیر متوازن تقسیم نے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا ہے اور وفاق اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی ہے۔
صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ صوبے اختیارات تو لے چکے ہیں لیکن ان کے استعمال میں سنجیدگی یا اہلیت کا فقدان ہے۔ کئی صوبے اپنی آمدنی بڑھانے کی بجائے مکمل انحصار این ایف سی فنڈز پر کرتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا، محصولات کا مؤثر جمع ہونا، اور عوامی خدمات میں بہتری کے لیے کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہیں آتی۔
علاوہ ازیں، مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے بجائے صوبائی حکومتیں اختیارات کو مرکز میں رکھتی ہیں۔ اس وجہ سے نچلی سطح پر سروس ڈیلیوری (جیسے کہ نکاسی آب، کوڑا کرکٹ، صاف پانی، صحت کی سہولیات) بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں کی حالت اس بات کی گواہ ہے کہ بلدیاتی سطح پر انتظامیہ ناکارہ ہو چکی ہے۔
وفاق کی مشکلات
وفاقی حکومت خود بھی شدید مالی دباؤ کا شکار ہے۔ قرضوں کی ادائیگی، دفاع، سبسڈی، اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے وفاق کے پاس خود مختار مالی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود اسے صوبوں کو مقررہ حصہ دینا پڑتا ہے، جبکہ صوبے نہ صرف اپنی کارکردگی بہتر کرنے سے قاصر ہیں بلکہ وفاق پر مزید بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
اصلاحات کی ضرورت اور ممکنہ راستے
ماہرین کا اتفاق ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صوبائی خودمختاری کو ختم کر دیا جائے۔ اصلاحات کا مقصد شفافیت، احتساب، کارکردگی اور وسائل کے مؤثر استعمال کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔
چند تجاویز درج ذیل ہو سکتی ہیں:
- کارکردگی سے مشروط وسائل کی تقسیم:
وہ صوبے جو تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، اور محصولات جمع کرنے میں بہتر کارکردگی دکھائیں، انہیں اضافی فنڈز دیے جائیں۔ - مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا:
اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں تاکہ بلدیاتی ادارے بہتر خدمات فراہم کر سکیں۔ - وسائل کی تقسیم کا نیا فارمولا:
آبادی کے ساتھ ساتھ غربت، پسماندگی، محصولات جمع کرنے کی استعداد، اور دیگر عوامل کو وزن دیا جائے۔ - نگرانی اور احتساب کا نظام:
ایک خودمختار ادارہ صوبوں کی کارکردگی پر نظر رکھے اور فنڈز کے استعمال کا آڈٹ کرے۔
کراچی کا کیس: این ایف سی ایوارڈ کی ناکامی کی عملی مثال
کراچی، جو پاکستان کا اقتصادی انجن ہے، بدترین شہری سہولیات، صفائی، پانی، اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے۔ ہر سال کی بارشوں کے بعد شہر کا حال حکومتی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کو ہی سہولیات نہ ملیں تو یہ این ایف سی ایوارڈ کی غیر موثر تقسیم اور صوبائی بے حسی کا ثبوت ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ نظام میں تبدیلی نہ لائی گئی تو کیا کراچی جیسے شہر مزید بدحالی کی طرف نہیں جائیں گے؟ اور کیا وفاق اور صوبوں کے درمیان خلیج مزید نہیں بڑھے گی؟
b کیا این ایف سی ایوارڈ پاکستان کا مالیاتی مسئلہ بن چکا ہے؟
این ایف سی ایوارڈ کا مقصد وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عوامی فلاح تھا، لیکن عملی طور پر یہ نظام بجائے حل کے، خود ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جب تک اس میں شفافیت، احتساب، کارکردگی اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کو یقینی نہیں بنایا جاتا، تب تک پاکستان اپنے مالیاتی مسائل سے نہیں نکل سکے گا۔
کراچی ہو یا کوئٹہ، لاہور ہو یا پشاور — ہر شہر کی ترقی این ایف سی ایوارڈ کے مؤثر استعمال سے جڑی ہوئی ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ اس نظام پر سنجیدگی سے نظرثانی کی جائے، ورنہ ہر بارش کے بعد ہمیں وہی المیے، وہی شکایات، اور وہی سوالات سننے کو ملیں گے۔
