نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ، ایف آئی اے نے بینکار اور پی آئی اے ملازم کو دھر لیا
پاکستان کے مالیاتی اداروں میں شفافیت ہمیشہ ایک اہم سوال رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ بے نقاب ہوا۔ اس معاملے نے نہ صرف بینکاری نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کیا بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متاثر کیا ہے۔
ایف آئی اے کی کارروائی
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے کمرشل بینکنگ سرکل نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے فراڈ میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے کے مطابق، یہ نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ (Fraud of Rs 1.5 billion in private bank) منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران ایک بینکار اور پی آئی اے کا نائب قاصد دھر لیا گیا، جو کمپنی کے نام پر اربوں روپے کی رقم خرد برد کر رہے تھے۔
فراڈ کی تفصیل
ایف آئی اے ترجمان کے مطابق، بینک کے 3 افسران نے ملی بھگت سے "آر ٹی سلوشن” نامی کمپنی بنائی اور اسے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) میں رجسٹرڈ بھی کرا لیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کمپنی کا سربراہ پی آئی اے کا نائب قاصد بنایا گیا، جس کے ذریعے نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ ممکن ہوا۔
رقوم کی منتقلی کا طریقہ
غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی رقوم پہلے جعلی کمپنی کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جاتیں، پھر بینکار اور دیگر افسران کے ذاتی اکاؤنٹس میں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملزمان نے اپنے اہل خانہ کے نام پر بھی بھاری رقوم منتقل کیں۔ یوں نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ کئی ماہ تک جاری رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
پرتعیش اخراجات
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، ملزمان نے اس فراڈ سے حاصل ہونے والی رقوم سے بیرون ملک دورے کیے اور صرف ہوائی سفر پر ہی سوا کروڑ روپے خرچ کر ڈالے۔ اس کے علاوہ، قیمتی اشیاء کی خریداری اور دیگر فضول اخراجات بھی کیے گئے۔ یہ تمام پہلو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ ذاتی عیاشی کے لیے کیا گیا۔
گرفتار افراد
ایف آئی اے نے بتایا کہ گرفتار ہونے والوں میں بینک کے "AI Head” سید عظیم الشان اور پی آئی اے کا ڈیلی ویجز ملازم کاشان شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر دو افسران بھی اس کیس میں نامزد ہیں۔ اس طرح نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ ایک منظم گروہ کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔
اکاؤنٹس منجمد
ایف آئی اے نے ملزمان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں تاکہ مزید رقوم منتقل نہ کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ، دیگر مشتبہ کھاتوں کی بھی چھان بین جاری ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق، نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ مکمل طور پر بے نقاب کرنے کے لیے مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔
اثرات اور عوامی ردعمل
یہ کیس عوامی اعتماد کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ عام شہری پہلے ہی مہنگائی اور مالی دباؤ کا شکار ہیں، ایسے میں جب نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ سامنے آتا ہے تو لوگ اپنے مالیاتی اداروں کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے اسکینڈلز سے ملکی معیشت بھی منفی اثرات کا شکار ہوتی ہے۔
ریگولیٹری اداروں کی کمزوری
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اتنا بڑا نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ ریگولیٹری اداروں کی نظروں سے کیسے اوجھل رہا؟ SECP میں رجسٹرڈ کمپنی کے نام پر اتنی بڑی رقم کی لین دین ہونا مالیاتی نگرانی کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ معاملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اداروں کو مزید سختی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فراڈ کی روک تھام کرنی ہوگی۔
عالمی تناظر
دنیا بھر میں مالیاتی فراڈ عام ہے لیکن وہاں سخت قوانین اور فوری سزاؤں کی وجہ سے ملزمان کو بڑی مشکل سے موقع ملتا ہے۔ پاکستان میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ جیسے کیسز کو مثال بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی افسر یا ملازم اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔
مستقبل کا لائحہ عمل
اس واقعے کے بعد حکومت اور ریگولیٹری اداروں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ضروری ہے کہ:
- بینکوں میں اندرونی آڈٹ سسٹم مزید مضبوط کیا جائے۔
- مشکوک ٹرانزیکشنز پر فوری کارروائی کی جائے۔
- ملازمین کی کڑی نگرانی اور تربیت لازمی بنائی جائے۔
صرف اسی صورت میں نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ جیسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بدعنوانی کا جال کتنا وسیع ہے۔ ایف آئی اے کی بروقت کارروائی قابلِ تعریف ہے لیکن اصل کامیابی تب ہوگی جب انصاف مکمل ہو اور اس جرم میں ملوث تمام کرداروں کو سزا ملے۔ ورنہ یہ خطرہ برقرار رہے گا کہ مستقبل میں پھر کسی اور بینک میں ایسا ہی اسکینڈل سامنے آئے۔
نجی بینک میں ڈیڑھ ارب روپے کا فراڈ صرف ایک کیس نہیں بلکہ پورے نظام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اب وقت ہے کہ ریاست اور ادارے اس چیلنج کو سختی سے قبول کریں۔
کراچی ائیرپورٹ پر ایف آئی اے نے اشتہاری ملزم کی بیرون ملک فرار کی کوشش ناکام بنا دی

Comments 1