پاک سعودی دفاعی معاہدہ نے خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی نوید دی
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دو ممالک کے مابین عسکری تعاون کی نئی جہت ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں ایک تاریخی اور انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی ایک پر حملہ، دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا، جو نیٹو طرز کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خلیج میں اسرائیلی جارحیت، خصوصاً قطر پر حملے، نے پورے خطے کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ عرب ممالک نے برسوں تک امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی پر انحصار کیا، مہنگا ترین اسلحہ مغربی ممالک سے خریدا، اور دفاعی معاہدے واشنگٹن کے ساتھ کیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو یہ معاہدے اسرائیل کی جارحیت روک سکے اور نہ ہی مغربی اسلحہ عربوں کے دفاع میں کام آیا۔
امریکہ کی پالیسی ہمیشہ سے اسرائیل کو مرکزِ حمایت رکھتی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عرب ریاستیں داخلی امن اور علاقائی بقاء کی متلاشی تھیں، امریکہ نے اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے عرب وسائل پر قبضے اور خطے کی نئی تقسیم کا منصوبہ ترتیب دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملہ نے گویا اس خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کر دیا، اور عرب دنیا یہ سمجھنے پر مجبور ہوئی کہ ان کے روایتی اتحادی ان کے حقیقی محافظ نہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں پاکستان اور سعودی عرب نے ایک ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جو صرف عسکری نہیں بلکہ جغرافیائی، سیاسی اور نظریاتی پہلو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم فوجی قوت کا حامل ہونا اس معاہدے کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کی بنیاد رکھتا ہے بلکہ خلیج میں طاقت کے توازن کو بھی یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔
قطر پر حملے نے یہ حقیقت آشکار کر دی کہ اسرائیل اب کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔ ایسے میں سعودی عرب کا پاکستان سے دفاعی اتحاد اس بات کی علامت ہے کہ عرب دنیا اب اپنی سلامتی کی ضمانت مغرب سے نہیں، بلکہ باہمی تعاون سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔
یہ معاہدہ دراصل 1980 میں ہونے والے اُس دفاعی معاہدے کا احیاء ہے جسے اُس وقت امریکی دباؤ کے تحت التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ تاہم آج کے حالات اور مشرق وسطیٰ میں بگڑتی صورتحال نے ایک بار پھر اس معاہدے کی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہے۔ ایران، ترکی، قطر اور مصر جیسے ممالک کی ممکنہ شمولیت اس اتحاد کو مسلم دنیا کا نیٹو بنانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
چین کی عالمی سیاست میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں کم ہوتا اثر اس معاہدے کے عالمی پہلو کو بھی واضح کرتا ہے۔ بیجنگ، اسلام آباد اور ریاض کے باہمی اشتراک سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی کم ہو اور خطہ اپنی سلامتی کے فیصلے خود کر سکے۔

گزشتہ دو برسوں میں امریکہ نے ثالثی کے نام پر عرب قیادت کو نقصان پہنچایا، حماس کی قیادت کا خاتمہ کیا، اور اسرائیل کو ہر محاذ پر کھلی چھوٹ دی۔ ایسی صورتحال میں اب عرب ممالک کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ وہ متحد ہو کر مشترکہ دفاعی حکمت عملی اپنائیں۔
پاک-سعودی دفاعی معاہدہ اسی ضرورت کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف کاغذی معاہدہ نہیں بلکہ فلسطین کے مظلوموں کے خون کا حساب لینے کی ایک علامت ہے۔ یہ معاہدہ اعلان ہے کہ مسلم دنیا اب صرف مذمت پر اکتفا نہیں کرے گی، بلکہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی۔ اگر اسرائیل، امریکہ یا کوئی اور ملک کسی عرب ریاست کو نشانہ بنائے گا تو اس کا ردعمل مشترکہ اور بھرپور ہوگا۔
امریکہ کو اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کی نئی حقیقت میں عرب ممالک مغرب کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ اپنی قومی خودمختاری اور اجتماعی سلامتی کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ پاک-سعودی معاہدہ صرف ایک عسکری معاہدہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے: اسلامی دنیا بیدار ہو چکی ہے، اور اب وہ دفاع کے لیے متحد ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرے گی۔-











Comments 1