پاکستان بھارت میچ: بھارتی ٹیم کا اسپورٹس مین اسپرٹ نظرانداز، ہاتھ ملانے سے انکار
دبئی میں پاک بھارت کرکٹ ٹاکرا: کھیل سے زیادہ تنازع کا میدان
اتوار 14 ستمبر کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا ایشیا کپ 2025 کا سب سے بڑا اور اہم ترین مقابلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا، جس نے دنیائے کرکٹ کے مداحوں کو ایک بار پھر اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ جہاں ایک جانب اس میچ نے شائقین کے جذبات کو عروج پر پہنچا دیا، وہیں دوسری جانب اس میچ میں بھارتی ٹیم کے رویے نے کھیل کی روح یعنی اسپورٹس مین اسپرٹ پر کئی سوالات کھڑے کر دیے۔
میچ کا خلاصہ: بھارت کی فتح، لیکن شائستگی کی شکست
اس ہائی وولٹیج مقابلے میں بھارت نے پاکستان کو 7 وکٹوں سے شکست دی، لیکن فتح کے بعد جس قسم کا رویہ بھارتی ٹیم اور خاص طور پر کپتان سوریا کمار یادو کی جانب سے اختیار کیا گیا، اس نے میچ کا مزہ کرکرا کر دیا۔ ٹاس کے موقع پر بھارتی کپتان نے پاکستان کے کپتان سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا، جوکہ کرکٹ میں ایک عام روایت اور باہمی احترام کا اظہار ہوتا ہے۔ نہ صرف یہی، بلکہ میچ کے اختتام پر بھی بھارتی کھلاڑیوں نے روایتی طور پر پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہیں ملایا، جو کہ کھیل کے دائرے میں ایک افسوسناک لمحہ تھا۔
کھیل سے سیاست تک: اسپورٹس مین اسپرٹ کی پامالی
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاک بھارت میچ کے دوران اس طرح کے غیر روایتی رویے دیکھنے میں آئے ہوں، مگر اس بار معاملہ اس لیے زیادہ توجہ کا مرکز بنا کیونکہ یہ حرکت ایک عالمی اسٹیج پر کی گئی، جہاں لاکھوں ناظرین دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ہر عمل کو بغور دیکھ رہے تھے۔ کرکٹ ہمیشہ سے صرف ایک کھیل نہیں رہی، خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین، بلکہ یہ دونوں ممالک کے عوام کے جذبات کی ترجمان بن چکی ہے۔ ایسے میں اسپورٹس مین اسپرٹ کو نظر انداز کرنا صرف ایک کھلاڑی کی نہیں بلکہ پورے کھیل کی توہین تصور کی جاتی ہے۔
ماضی کا تناظر: دوستی یا مجبوری؟
یاد رہے کہ چند روز قبل اسی دبئی اسٹیڈیم میں بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے مصافحہ کیا تھا۔ اس بظاہر معمولی مگر خوشگوار لمحے کو بھارت میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اور سوشل میڈیا پر انہیں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جا رہا ہے کہ اسی تناظر میں سوریا کمار نے اس میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملا کر بھارت میں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک کھلاڑی کی حب الوطنی کا پیمانہ اس کی شائستگی اور اسپورٹس مین اسپرٹ کو پامال کر کے طے کیا جائے گا؟
آئی سی سی کا رویہ: دہرا معیار؟
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے میچ ریفری کے متعصبانہ رویے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی، جسے آئی سی سی نے مسترد کر دیا۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ آئی سی سی نے پاکستان کی درخواست کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا، جس سے ایک بار پھر عالمی ادارے کے مبینہ جانبدارانہ رویے پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ یہ اقدام بھی اس پورے تنازع کو مزید پیچیدہ بنا گیا۔
بی سی سی آئی کا مؤقف: قانون یا اخلاقیات؟
اس معاملے پر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے ایک سینیئر عہدیدار نے بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کھلاڑیوں کو مخالف ٹیم سے ہاتھ ملانے پر مجبور کرنے کا کوئی باقاعدہ قانون موجود نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک "خیر سگالی کا جذبہ” ہے، کوئی لازمی ضابطہ نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات ماضی میں کشیدہ رہے ہیں، اس لیے بھارتی کھلاڑیوں کو ایسے جذباتی لمحے میں مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
یہ مؤقف اگرچہ قانونی طور پر درست ہو سکتا ہے، مگر اخلاقی طور پر یقیناً سوالیہ نشان ہے۔ دنیا بھر میں کرکٹ کو ایک "جینٹلمینز گیم” سمجھا جاتا ہے، اور اس کھیل کی سب سے بڑی پہچان اس کی اسپورٹس مین اسپرٹ ہے۔ جب ایک ٹیم صرف اس بنیاد پر روایات کو توڑے کہ دوسری ٹیم کا تعلق ایک مخصوص ملک سے ہے، تو یہ نہ صرف کھیل بلکہ عالمی برادری میں موجود مثبت روایات کی توہین ہے۔
سوشل میڈیا پر ردِ عمل: تقسیم شدہ رائے
میچ کے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی موضوع بحث بن گیا۔ پاکستانی صارفین نے بھارتی ٹیم کے رویے پر شدید تنقید کی اور اسے "ناشائستہ” اور "غیر پیشہ ورانہ” قرار دیا، جبکہ بھارتی صارفین کی ایک بڑی تعداد نے سوریا کمار کے رویے کو حب الوطنی کا مظاہرہ قرار دیا۔ تاہم، کچھ بھارتی شائقین بھی ایسے تھے جنہوں نے اس رویے کو "کرکٹ کی روح کے خلاف” قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا۔
کیا کرکٹ صرف ایک کھیل ہے؟
یہ سوال ایک بار پھر ذہن میں آتا ہے کہ کیا کرکٹ واقعی صرف ایک کھیل ہے؟ یا پھر یہ سیاست، قوم پرستی، اور نظریاتی کشمکش کا ایک ذریعہ بن چکی ہے؟ جب کھلاڑی میدان میں اترتے ہیں تو وہ صرف اپنی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ اپنے ملک کے اقدار اور روایات کا بھی عکس ہوتے ہیں۔ ایسے میں جب ایک کھلاڑی جان بوجھ کر اسپورٹس مین اسپرٹ کو نظر انداز کرے، تو یہ عمل نہ صرف کھیل کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ آئندہ نسل کے کھلاڑیوں کے لیے بھی ایک غلط مثال بن سکتا ہے۔
فتح کا جشن یا اخلاقی شکست؟
اگرچہ بھارت نے اس میچ میں کامیابی حاصل کی، مگر کھیل کے میدان میں جو اخلاقی شکست بھارت نے کھائی، وہ شاید زیادہ گہری ہے۔ ایک فاتح ٹیم سے ہمیشہ اعلیٰ ظرفی، رواداری اور احترام کی توقع کی جاتی ہے۔ اگر یہ چیزیں میچ جیتنے کے بعد بھی نظر نہ آئیں تو پھر فتح کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے۔
کرکٹ جیسے عظیم کھیل کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا نہ صرف کھیل کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ ان کروڑوں شائقین کے ساتھ بھی ظلم ہے جو ہر بار ٹی وی اسکرینز پر یہ امید لیے بیٹھتے ہیں کہ شاید اس بار کرکٹ دو دشمن ملکوں کے بیچ دوستی کی کوئی نئی راہ نکالے۔












Comments 1