پاکستان کی اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیعی عزائم پر شدید مذمت: ین الاقوامی قانون و اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فلسطینی حقوق کی کھلی خلاف ورزی
اسلام آباد — پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اپنی نام نہاد ’’خود مختاری‘‘ کو توسیع دینے کی کوششوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ یہ فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق کو پامال کرنے کی دانستہ کوشش بھی ہے۔
یہ ردعمل اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) کی جانب سے ایک روز قبل اُس مسودۂ قانون کی ابتدائی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے ذریعے اسرائیلی قوانین کو مقبوضہ مغربی کنارے پر لاگو کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس قانون کا مقصد مغربی کنارے کو بتدریج اسرائیلی انتظام میں لانا ہے، جو کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری کی متفقہ رائے کے مطابق فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضے کے مترادف ہے۔
بدھ کے روز اسرائیلی قانون سازوں نے دو متنازعہ بلز کی ابتدائی منظوری دی، جن میں سے ایک مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق ہے۔ اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیع کی پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ میں جاری دو سالہ اسرائیلی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک امن معاہدہ طے کروایا تھا۔ اس تناظر میں اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیع کے اقدام کو امن کی کوششوں کے برعکس ایک اشتعال انگیز قدم سمجھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’پاکستان مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں، بشمول غیر قانونی اسرائیلی بستیوں پر اسرائیل کی نام نہاد ’خودمختاری‘ کی توسیع کی کوششوں کی سخت مذمت کرتا ہے، جو قابض طاقت کی پارلیمان میں پیش کیے گئے مسودۂ قانون کے ذریعے کی جا رہی ہیں۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیعی اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، بین الاقوامی انسانی قانون اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کے خلاف ہیں۔ وزارتِ خارجہ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے ان غیر قانونی اقدامات کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن کردار ادا کرے۔
دفترِ خارجہ نے کہا کہ ’’اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیعی اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے جاری کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ اپنے سیاسی، اخلاقی اور سفارتی تعاون کو ہر سطح پر جاری رکھے گا۔
وزارتِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، آزادی، انصاف اور عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک آزاد، خودمختار اور جغرافیائی طور پر مسلسل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے، جو 1967 کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
یہ پیش رفت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو پر اندرونی سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے اتحادی کئی برسوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو باقاعدہ طور پر ضم کرے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ علاقے بائبل کے مطابق تاریخی طور پر اس کے ہیں، تاہم عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ انہیں ’’مقبوضہ علاقے‘‘ قرار دیتے ہیں۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ پر قبضہ کیا تھا۔ اگرچہ بعد ازاں مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدے ہوئے، مگر فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی تسلط آج بھی جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف متعدد بار اسرائیل سے ان علاقوں سے انخلا کا مطالبہ کر چکے ہیں، لیکن اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی بدستور جاری ہے۔
سنہ 2024 میں اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عدالت (ICJ) نے قرار دیا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں، بشمول مغربی کنارے، پر قبضہ اور وہاں آبادکاری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل کو فوری طور پر ان بستیوں کے قیام کو روکنا اور پہلے سے قائم غیر قانونی بستیوں کو ختم کرنا چاہیے۔ اس فیصلے کے باوجود اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیعی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ انہیں مزید مضبوط کیا ہے۔
مغربی کنارے میں اس وقت تقریباً ساڑھے چار لاکھ اسرائیلی آبادکار مقیم ہیں جو درجنوں غیر قانونی بستیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان بستیوں کے قیام کے باعث فلسطینی عوام کی زمینوں پر قبضہ، نقل و حرکت کی آزادی میں رکاوٹ اور معاشی استحصال بڑھتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق یہ عمل ’’ڈی فیکٹو انضمام‘‘ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
جے ڈی وینس اوراسرائیلی پارلیمنٹ کی قانون سازی
بدھ کو کنیسٹ میں ہونے والی ووٹنگ اس قانون کی منظوری کے چار مراحل میں پہلا مرحلہ تھی۔ یہ ووٹ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے اسرائیل کے دورے کے دوران ہوا، جس نے بین الاقوامی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم کی جماعت ’لیکود‘ نے اس قانون کی حمایت نہیں کی۔ بل حکومتی اتحاد سے باہر قانون سازوں نے پیش کیا تھا اور یہ 24 کے مقابلے میں 25 ووٹوں سے منظور ہوا۔
اس سے قبل ایک اور بل جس میں معالیہ ادومیم نامی بستی کے انضمام کی تجویز دی گئی تھی، 9 کے مقابلے میں 31 ووٹوں سے منظور ہوا۔ ان دونوں بلز کی منظوری نے فلسطینی حلقوں میں غم و غصہ پیدا کر دیا ہے اور فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’’جنگِ امن‘‘ کے مترادف اقدام قرار دیا ہے۔
امریکا کا ردعمل : غزہ امن معاہدے کے لیے خطرہ
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی اقدام پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس وقت اسرائیل کی جانب سے کسی بھی انضمامی کوشش کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ایسے اقدامات غزہ امن معاہدے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ عمل نہ صرف خطے کو مزید غیر مستحکم کرے گا بلکہ امن کی کسی بھی کوشش کو نقصان پہنچائے گا۔‘‘
مارکو روبیو نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم اس بات پر گہری تشویش رکھتے ہیں کہ مغربی کنارے میں آبادکاروں کا بڑھتا ہوا تشدد خطے میں امن کے امکانات کو مزید کم کر رہا ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’’امن معاہدے کے استحکام کے لیے کوششیں جاری رہیں گی۔‘‘
US Secretary of State Marco Rubio criticises a decision by Israel's parliament to pass a preliminary bill to annex the occupied West Bank pic.twitter.com/DXVDBteppT
— TRT World (@trtworld) October 23, 2025
حماس کا ردعمل
دوسری جانب فلسطینی قیادت نے اسرائیل کے مغربی کنارے تک توسیعی اقدام کو امن کے لیے ’’ایک اور جنازہ‘‘ قرار دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ ’’اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو نہ روکا تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نیا دھماکہ خیز مرحلہ شروع ہو سکتا ہے۔‘‘ حماس کے رہنماؤں نے بھی اس اقدام کو ’’قبضے کو قانونی رنگ دینے کی کوشش‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ فلسطینی عوام کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ
پاکستان نے عالمی برادری، بالخصوص اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اسرائیل کے ان غیر قانونی اقدامات کو رکوانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ’’یہ وقت محض مذمتوں کا نہیں بلکہ عملی کارروائی کا ہے۔
پاکستان کا دیرینہ مؤقف (israel expansion into palestine)
پاکستان نے ایک بار پھر فلسطین کے مسئلے پر اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا حل کے لیے ہر ممکن سفارتی، سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے گا۔ پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دو ریاستی حل کے تحت ممکن ہے۔
🔊PR No.3️⃣1️⃣4️⃣/2️⃣0️⃣2️⃣5️⃣
The ICJ’s Advisory Opinion on Israel’s Obligations to the UN and Other International Organizations in the Occupied Palestinian Territory
🔗⬇️https://t.co/HBgpdLx7X4 pic.twitter.com/lmKM2ByHM5
— Ministry of Foreign Affairs - Pakistan (@ForeignOfficePk) October 23, 2025
ماہرین کے مطابق : گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب
اسلام آباد میں سیاسی و سفارتی ماہرین کے مطابق اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں اس کی دیرینہ توسیع پسندانہ پالیسی(israel annexation bill) کا تسلسل ہیں، جن کا مقصد خطے میں ایک ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو نہ روکا تو یہ تنازع صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
BREAKING 🚨
Israel Knesset has passed bill to annex the West Bank! pic.twitter.com/jhf5c9ln3n
— Global Sumud Flotilla✨ | Independent (@GSFlotilla) October 23, 2025
Comments 1