پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹرز کے این او سی کارکردگی سے مشروط کر دیے
پی سی بی کا سخت اقدام: قومی کرکٹرز کے این او سی کارکردگی سے مشروط، بگ بیش لیگ سمیت غیر ملکی لیگز پر اثرات
"ترجیح صرف پاکستان” — پی سی بی کا واضح پیغام، بڑے نام متاثر
پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) نے ایک بڑا اور فیصلہ کن قدم اٹھاتے ہوئے قومی کرکٹرز کو غیر ملکی لیگز میں شرکت کے لیے جاری کردہ تمام این او سی (No Objection Certificates) تاحکمِ ثانی معطل کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستانی ٹیم کو حالیہ ایشیا کپ فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور کرکٹ حلقوں میں کھلاڑیوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
فیصلے کا اعلان اور اس کی تفصیلات
ذرائع کے مطابق پی سی بی کے چیف آپریٹنگ آفیسر سمیر احمد کی جانب سے ایک سرکاری نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ:
"تمام موجودہ این او سی تاحکمِ ثانی معطل کیے جا رہے ہیں، اور مستقبل میں کسی بھی کھلاڑی کو این او سی جاری کرنے سے پہلے اس کی حالیہ بین الاقوامی اور ڈومیسٹک کارکردگی کو جانچا جائے گا۔”
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے کیا گیا ہے، تاکہ کھلاڑیوں کی پہلی ترجیح پاکستان کی نمائندگی اور فٹنس ہو، نہ کہ صرف مالی مفادات کے حصول کے لیے غیر ملکی لیگز۔
متاثرہ کھلاڑی: بابر، رضوان، شاہین، شاداب سمیت کئی ستارے
پی سی بی کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے کھلاڑی وہی ہیں جو عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان سمجھے جاتے ہیں:
- بابر اعظم (سابق کپتان)
- محمد رضوان (وکٹ کیپر بلے باز)
- شاہین شاہ آفریدی (فاسٹ بولر)
- شاداب خان (آل راؤنڈر)
- حارث رؤف (اسپیڈ اسٹار)
- فہیم اشرف (آل راؤنڈر)
یہ تمام کھلاڑی آسٹریلیا کی مشہور بگ بیش لیگ (BBL) میں شرکت کے لیے تیار تھے اور پی سی بی سے این او سی حاصل بھی کر چکے تھے۔ تاہم، اب ان کا لیگ میں کھیلنا مشکوک ہو چکا ہے۔
نئی پالیسی: کارکردگی ہوگی تو این او سی ملے گا
پی سی بی نے واضح کیا ہے کہ مستقبل میں کسی بھی کھلاڑی کو صرف تب ہی غیر ملکی لیگ میں شرکت کی اجازت دی جائے گی، جب وہ:
- قومی ٹیم میں مسلسل اچھی کارکردگی دکھا رہا ہو،
- ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار فارم میں ہو،
- اور فٹنس کے تمام معیار پر پورا اترتا ہو۔
جن کھلاڑیوں کی کارکردگی ان معیارات پر پوری نہیں اترے گی، انہیں لاہور میں واقع نیشنل کرکٹ اکیڈمی (NCA) میں کوچز کی زیرنگرانی اپنی صلاحیتوں پر مزید کام کرنا ہوگا۔
ایشیا کپ کی شکست کے بعد سخت فیصلے کا پس منظر
یہ فیصلہ ایشیا کپ 2025 کے فائنل میں پاکستان کی شکست کے اگلے ہی روز سامنے آیا ہے، جسے کئی حلقے ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان سمجھ رہے ہیں۔
رواں سال کے آغاز سے پاکستانی ٹیم میں کارکردگی کا تسلسل مفقود رہا ہے۔ خاص طور پر سینئر کھلاڑیوں کی غیر مستقل کارکردگی اور مرکزی کھلاڑیوں کی مصروفیت غیر ملکی لیگز میں بورڈ کے لیے تشویش کا باعث بن چکی تھی۔
بورڈ کا خیال ہے کہ کچھ کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کو ثانوی حیثیت دے کر صرف مالی فائدے کے لیے عالمی لیگز کو ترجیح دے رہے ہیں، جو قومی کرکٹ کے مفاد میں نہیں۔
کھلاڑیوں کی کمٹمنٹ یا تجارتی رجحان؟
یہ سوال گزشتہ کئی ماہ سے گردش کر رہا ہے کہ:
- کیا پاکستانی کرکٹرز کی توجہ مکمل طور پر ملک کی نمائندگی پر ہے یا غیر ملکی لیگز کے مالی فائدے پر؟
- چند کھلاڑی سال بھر میں مختلف لیگز میں شرکت کرتے ہیں، جس کے باعث:
- وہ بین الاقوامی کیلنڈر سے باہر ہو جاتے ہیں،
- ان کی فٹنس پر اثر پڑتا ہے،
- اور ٹیم کے لیے دستیابی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
- پی سی بی کے مطابق یہ نئی پالیسی اس توازن کو بحال کرنے کی کوشش ہے، تاکہ قومی کرکٹرز کی ترجیح پاکستان ہو، تنخواہ نہیں۔
سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل
پی سی بی کے اس سخت فیصلے پر سوشل میڈیا پر ردعمل دو انتہاؤں پر تقسیم ہو چکا ہے:
حمایتی رائے:
- "یہی وقت ہے سخت فیصلوں کا، ورنہ کارکردگی مزید گر جائے گی۔”
- "ملک کے لیے کھیلنے کا جذبہ باقی رہنا چاہیے، نہ کہ صرف لیگ کھیلنے کا جنون۔”
تنقیدی رائے:
- "پی سی بی اپنی ناکامی کا ملبہ کھلاڑیوں پر ڈال رہا ہے۔”
- "کھلاڑیوں کو مالی آزادی سے محروم کرنا ناانصافی ہے۔”
کئی مداحوں کا کہنا ہے کہ اگر کھلاڑیوں کو لیگز کھیلنے سے روکا جائے گا، تو انہیں معاشی سیکیورٹی بھی فراہم کی جانی چاہیے۔
بین الاقوامی سطح پر ممکنہ اثرات
پی سی بی کے اس فیصلے کے اثرات صرف ملکی سطح پر ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی کرکٹ لیگز پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، بنگلہ دیش، اور متحدہ عرب امارات کی لیگز پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت سے نہ صرف تجارتی فائدہ اٹھاتی ہیں بلکہ مقابلے کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔
اگر پاکستان کے ٹاپ پلیئرز غیر دستیاب ہوں گے تو:
- کئی فرنچائزز کو متبادل تلاش کرنے ہوں گے،
- ٹورنامنٹس کی مارکیٹنگ ویلیو متاثر ہوگی،
- اور کھلاڑیوں کے بین الاقوامی تجربے کا دائرہ محدود ہو جائے گا۔
کیا یہ فیصلہ دیرپا ہوگا؟
تاریخی طور پر پی سی بی کے کئی سخت فیصلے وقت کے ساتھ نرم پڑتے رہے ہیں۔ کرکٹ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کھلاڑیوں اور بورڈ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ فیصلہ عارضی ثابت ہو سکتا ہے۔
البتہ اگر بورڈ اپنی پالیسی پر قائم رہتا ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ:
- کھلاڑیوں کی کارکردگی کا معیار شفاف انداز میں طے کیا جائے،
- تمام کھلاڑیوں کو برابر مواقع دیے جائیں،
- اور انہیں معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔
کھیل یا کمائی؟ وقت ہے ترجیح طے کرنے کا
پی سی بی کا یہ فیصلہ اس بحث کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے جو عرصے سے جاری ہے: کیا قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ہر حال میں پاکستان کو ترجیح دینی چاہیے؟ یا کیا ان کا مالی تحفظ بھی اتنا ہی اہم ہے؟
جہاں ایک طرف یہ فیصلہ ملکی کرکٹ کو اولین ترجیح دینے کی جانب مثبت قدم ہے، وہیں دوسری طرف اسے کھلاڑیوں کی آزادی اور روزگار پر قدغن بھی سمجھا جا رہا ہے۔
مستقبل قریب میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کھلاڑی اس فیصلے پر کیا ردِعمل دیتے ہیں، اور آیا پی سی بی اپنے اس مؤقف پر قائم رہتا ہے یا نرم رویہ اختیار کرتا ہے











