پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ – جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت غیر یقینی
پاکستان ہاکی فیڈریشن (PHF) کے صدر طارق بگٹی نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ دے رہی ہے، جس کے بعد دسمبر میں بھارت میں ہونے والے جونیئر ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستان کی شرکت غیر یقینی ہو گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری سیاسی کشیدگی اور تعلقات میں تناؤ کے باعث پہلے ایشیا کپ میں پاکستان ہاکی ٹیم کو بھارت نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، اور اب یہی صورتحال جونیئر ورلڈ کپ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ایشیا کپ میں عدم شرکت اور اس کے اثرات
ایشیا کپ میں پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ پہلے ہی عملی طور پر ظاہر ہو چکا ہے، کیونکہ پاکستان نے یہ ایونٹ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے نے پاکستان ہاکی کے حلقوں میں بحث کو جنم دیا کہ اس سے مستقبل میں ورلڈ کپ کوالیفائرز کے مواقع ضائع ہو سکتے ہیں۔
طارق بگٹی نے اس خدشے کو تسلیم کیا مگر ساتھ ہی امید ظاہر کی کہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن (FIH) پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے کوئی متبادل موقع فراہم کرے گی تاکہ پاکستان عالمی سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھ سکے۔
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ – بنیادی وجوہات
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اس فیصلے کے کئی اسباب بیان کیے ہیں، جن میں شامل ہیں:
- سیاسی کشیدگی
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ سب سے زیادہ دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دیا جا رہا ہے۔ فیڈریشن کا موقف ہے کہ ایسے حالات میں کھلاڑیوں کی حفاظت اور عزت نفس کو ترجیح دینا ضروری ہے۔
- کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کے خدشات
بھارت میں ہونے والے ایونٹس میں پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے سیکیورٹی ایک بڑا مسئلہ رہی ہے، اور حالیہ سیاسی حالات نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
- حکومتی پالیسی اور منظوری
پاکستان ہاکی ٹیم کو بھارت بھیجنے کے لیے حکومتی منظوری درکار ہوتی ہے، اور موجودہ پالیسیوں کے تحت بھارت کے ساتھ کھیلوں کے تعلقات محدود ہیں۔
جونیئر ورلڈ کپ – کھلاڑیوں کے لیے مایوسی
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت انہیں عالمی سطح پر تجربہ حاصل کرنے کا سنہری موقع فراہم کرتی۔
ہاکی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ہاکی ٹیم کو جونیئر ورلڈ کپ میں نہ بھیجا گیا تو اس کا اثر نہ صرف موجودہ کھلاڑیوں پر پڑے گا بلکہ آئندہ نسل کے کھلاڑیوں کی ترقی بھی متاثر ہوگی۔
پرو لیگ میں شرکت – امید کی کرن
طارق بگٹی نے کہا کہ پرو لیگ میں پاکستان کی شمولیت خوش آئند ہے اور یہ پاکستان ہاکی کے لیے مثبت خبر ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ٹیم کو بین الاقوامی معیار تک لانے کے لیے کچھ شعبوں میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، خاص طور پر گول کیپنگ کے شعبے میں۔
گول کیپنگ کوچ کی ضرورت اور وسائل کا مسئلہ
فیڈریشن کے صدر نے کہا کہ پاکستان ہاکی ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے غیر ملکی گول کیپنگ کوچ کی خدمات حاصل کرنا لازمی ہے، لیکن مالی مسائل آڑے آ رہے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ غیر ملکی کوچز بھاری معاوضہ مانگتے ہیں، اور فیڈریشن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اکیلے یہ بوجھ اٹھا سکے۔ اس حوالے سے انہوں نے حکومت سے تعاون کی اپیل کی ہے۔
فنڈز کی شفافیت اور حکومتی تعاون
طارق بگٹی نے بتایا کہ پرو لیگ کے فنڈز فراہم کرنے پر وہ وزیراعظم، وزارت انٹرفیئر پروونشل کوآرڈینیشن (IPC) اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ پرو لیگ کے فنڈز براہ راست پاکستان اسپورٹس بورڈ کے پاس رہنے چاہئیں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے اور کسی قسم کے بدعنوانی کے خدشات ختم ہو سکیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ – ماہرین کی رائے
کھیلوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ اگرچہ سیاسی طور پر ایک مضبوط پیغام ہے، لیکن اس کے کھیل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
نوجوان کھلاڑیوں کے عالمی مقابلوں میں کھیلنے کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔
پاکستان ہاکی عالمی رینکنگ میں مزید پیچھے جا سکتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں بھی کھیل کے ذریعے پل بنانے کا موقع ضائع ہو سکتا ہے۔
کھلاڑیوں اور عوامی ردعمل
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ سن کر کھلاڑیوں اور عوام نے مختلف آراء کا اظہار کیا۔
کچھ لوگوں نے فیڈریشن کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ کھلاڑیوں کی عزت اور حفاظت سب سے اہم ہے۔
جبکہ کئی سابق ہاکی کھلاڑیوں نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔
حل اور تجاویز
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ اگر مستقل پالیسی میں تبدیل ہو گیا تو اس کے طویل المدتی نتائج ہوں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ماہرین نے چند تجاویز پیش کی ہیں:
- کھیل اور سیاست کو الگ کرنا
کھیل کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے، اس لیے ہاکی ٹیموں کو کھیلنے کے مواقع دیے جانے چاہئیں۔
- متبادل نیوٹرل وینیو
اگر بھارت میں کھیلنا ممکن نہ ہو تو ایف آئی ایچ کو چاہیے کہ پاکستان کے میچز کسی تیسرے ملک میں منعقد کرے۔
- حکومتی اور فیڈریشن کا مشترکہ لائحہ عمل
حکومت اور ہاکی فیڈریشن کو مل کر ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے جو کھیل کی ترقی اور کھلاڑیوں کے عالمی معیار کو متاثر نہ کرے۔
پاکستان ہاکی ٹیم کو پرو ہاکی لیگ میں شرکت کی اجازت، وفاقی حکومت نے 250 ملین روپے گرانٹ منظور کر لی
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ فیڈریشن کی جانب سے ایک اہم اعلان ہے جو موجودہ سیاسی حالات اور سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ تاہم اس فیصلے کے کھیل پر منفی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف نوجوان کھلاڑی عالمی سطح پر مواقع سے محروم رہیں گے بلکہ پاکستان ہاکی کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔


Comments 1