پاکستان میں چینی بحران کا ذمہ دار کون؟ قومی اسمبلی کی رپورٹ نے سب کچھ واضح کر دیا
پاکستان میں چینی بحران ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔
ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور مصنوعی قلت کے بعد
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی نے
اپنی جامع رپورٹ جاری کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی بحران کا براہِ راست ذمہ دار
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) کو قرار دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے واضح طور پر کہا کہ شوگر ملز نے منڈی میں قیمتوں میں ہیرا پھیری کی
اور مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کو مہنگی چینی خریدنے پر مجبور کیا۔
پاکستان میں چینی بحران کی تحقیقات — کمیٹی کی رپورٹ میں اہم انکشافات
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق
پاکستان میں چینی بحران کی اصل وجہ شفافیت کی کمی اور حکومتی نگرانی کا فقدان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شوگر سیکٹر میں شفافیت کے لیے
ڈی ریگولیشن (De-regulation) ناگزیر ہے تاکہ حکومتی مداخلت کم ہو
اور چینی کی قیمتوں کا تعین شفاف انداز میں ہو سکے۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ پاکستان میں چینی بحران کے دوبارہ پیدا ہونے سے بچنے کے لیے
ملک میں کم از کم پانچ لاکھ چالیس ہزار میٹرک ٹن چینی کا
اسٹریٹجک ذخیرہ ہر وقت برقرار رکھا جائے۔
مزید برآں، شوگر ایڈوائزری بورڈ میں نجی شعبے کے ارکان کو شامل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے
تاکہ فیصلے صرف بیوروکریسی تک محدود نہ رہیں۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کردار — پاکستان میں چینی بحران کیوں پیدا ہوا؟
کمیٹی کے کنوینئر مرزا اختیار بیگ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا
کہ پاکستان میں چینی بحران کی بنیادی وجہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ارکان ہیں،
جنہوں نے منڈی میں چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اتار چڑھاؤ پیدا کیا۔
انہوں نے بتایا کہ مل مالکان نے پہلے چینی کو بیرون ملک برآمد (Export) کیا
اور جب مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوئی تو
پھر سے وہی چینی درآمد (Import) کر کے زیادہ قیمت پر بیچنا شروع کر دی۔
یہی طریقہ کار پاکستان میں چینی بحران کی سب سے بڑی وجہ بنا۔
مرزا اختیار بیگ کا کہنا تھا:
“چینی کی قیمتوں میں اضافہ کسی قدرتی وجہ سے نہیں بلکہ منظم انداز میں کیا گیا۔
شوگر ایڈوائزری بورڈ کا کردار بھی شفاف نہیں رہا،
جس پر سوالیہ نشان اٹھانا ناگزیر ہے۔”
پاکستان میں چینی بحران اور ٹیکس پالیسی میں نرمی
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ حکومت نے
چینی درآمد پر ٹیکس کو 48 فیصد سے کم کر کے صرف 0.5 فیصد کر دیا،
تاکہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت کم ہو سکے،
لیکن اس کے باوجود پاکستان میں چینی بحران ختم نہیں ہوا۔
ذیلی کمیٹی نے کہا کہ اگر اس رعایت کے باوجود قیمتوں میں کمی نہیں آئی
تو اس کا مطلب ہے کہ معاملہ صرف مارکیٹ کی قوتوں کا نہیں
بلکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت قیمتوں کو اوپر رکھا گیا۔
پاکستان میں چینی بحران پر مزید تحقیقات کا اعلان
قائمہ کمیٹی تجارت نے پاکستان میں چینی بحران کے معاملے کی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کو از سرِ نو تشکیل دینے کی سفارش کی گئی ہے
تاکہ نئے اراکین کے ساتھ یہ معاملہ مکمل طور پر شفاف انداز میں دوبارہ جانچا جا سکے۔
کمیٹی کے چیئرمین جاوید حنیف نے کہا کہ:
“ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ چینی کی برآمد اور درآمد کے فیصلوں سے
کن مخصوص افراد یا گروہوں نے مالی فائدہ اٹھایا۔
اس کے بغیر پاکستان میں چینی بحران حل نہیں ہو سکتا۔”
کمیٹی نے مسابقتی کمیشن آف پاکستان (CCP) سے بھی
رپورٹ طلب کر لی ہے تاکہ معلوم ہو سکے
کہ چینی کی قیمتوں کے پیچھے کس نے اجارہ داری قائم کی۔
پاکستان میں چینی بحران — عوام پر اثرات
پاکستان میں چینی بحران نے عام شہری کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔
چینی کی قیمتیں 180 سے 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہیں،
جبکہ کئی علاقوں میں یہ 220 روپے سے بھی اوپر فروخت ہو رہی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی اس نئی لہر نے
گھر کے بجٹ کو مکمل طور پر درہم برہم کر دیا ہے۔
ایک شہری نے کہا:
“پہلے چینی 100 روپے کلو تھی، اب دگنی ہو گئی ہے۔
حکومت صرف وعدے کرتی ہے، عمل نظر نہیں آتا۔”
پاکستان میں چینی بحران اور حکومت کا ردعمل
حکومتی ذرائع کے مطابق وزارت تجارت نے کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت آئندہ ہفتے پاکستان میں چینی بحران پر
کابینہ سطح پر میٹنگ بلائے گی،
جس میں شوگر ملز کے خلاف کارروائی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات پر بات ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کو بھی ہدایت دی گئی ہے
کہ وہ ٹیکس میں رعایت کے باوجود قیمتوں میں اضافے کی وجوہات تلاش کریں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر کسی مافیا نے پاکستان میں چینی بحران پیدا کیا ہے
تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
ماہرین معیشت کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی بحران
صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ معاشی پالیسیوں میں کمزوری کی نشانی ہے۔
جب تک حکومت اجناس کی قیمتوں کا مؤثر کنٹرول سسٹم نہیں بناتی،
اس طرح کے بحران بار بار جنم لیتے رہیں گے۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق:
“چینی کا معاملہ صرف ایک کموڈیٹی نہیں،
یہ پاور اور پالیسی کا کھیل ہے۔
جب تک شفاف پالیسی نہیں بنے گی،
پاکستان میں چینی بحران ختم نہیں ہوگا۔”
پاکستان میں چینی کی قیمتیں عوامی بحث کا مرکز
رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں چینی بحران
منڈی کے قدرتی اتار چڑھاؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ
سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔
کمیٹی کی سفارشات اگر فوری طور پر نافذ کی جائیں
تو ممکن ہے کہ آئندہ اس طرح کے بحران سے بچا جا سکے۔
تاہم جب تک شفافیت، نگرانی، اور قانون پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا،
پاکستان میں چینی بحران ایک مستقل مسئلہ بن کر
عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا رہے گا۔