نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار کا او آئی سی اجلاس سے خطاب — گریٹر اسرائیل منصوبہ پاکستان مسترد کرتا ہے
جدہ :— نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے غیرمعمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گریٹر اسرائیل منصوبہ سخت ناقابلِ قبول ہے اور گریٹر اسرائیل منصوبہ پاکستان مسترد کرتا ہے ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ منصوبہ خطے اور دنیا کے امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔
یہ غیرمعمولی اجلاس جدہ میں ایسے وقت منعقد ہوا جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت اپنے عروج پر ہے اور فلسطینی عوام مسلسل خونریز حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اجلاس کی میزبانی او آئی سی نے کی، جس میں ترکیہ، ایران، فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہا اور ترک نائب وزیر خارجہ ڈاکٹر نوح یلماز نے اجلاس کے آغاز پر فلسطینی عوام کے حق میں بھرپور موقف اختیار کیا۔ انہوں نے اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت، مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع اور غزہ میں قحط و تباہی کو عالمی ضمیر کے لیے چیلنج قرار دیا۔
اسحٰق ڈار کا خطاب
اپنے خطاب میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ:
"یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب غزہ لہو لہو ہے، ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور زیادہ تر شہداء میں معصوم بچے اور خواتین شامل ہیں۔”
"اسرائیل عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے اور فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔”
"غزہ کے اسکول، اسپتال، اقوام متحدہ کی پناہ گاہیں اور کیمپ حملوں کی زد میں ہیں، جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین میں قحط اور انسانی المیے کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، ایسے میں عالمی برادری کو فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ پاکستان مسترد کرتا ہے
وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے واضح کیا:
"گریٹر اسرائیل منصوبہ امن کے لیے سنگین خطرہ ہے، یہ منصوبہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق اور خودمختاری کو غصب کرنے کی کوشش ہے۔ پاکستان اس منصوبے کو کبھی قبول نہیں کرے گا اور واضح طور پر گریٹر اسرائیل منصوبہ پاکستان مسترد کرتا ہے”
انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گا بلکہ عرب ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ساتھ کھڑا ہے۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ اور خطے کی صورتحال
گریٹر اسرائیل منصوبہ” (Greater Israel Project) ایک سیاسی و مذہبی تصور ہے جو بنیادی طور پر اسرائیلی انتہا پسند صہیونی گروہوں کے نظریے سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل کی سرحدیں صرف موجودہ جغرافیہ تک محدود نہیں بلکہ یہ کئی دوسرے ممالک کی زمینوں پر بھی پھیلنی چاہئیں۔
یہ نظریہ تلمود اور تورات کی بعض تشریحات اور بعض صہیونی سیاست دانوں کے بیانات پر مبنی ہے۔
اس منصوبے کے مطابق اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل (مصر) سے دریائے فرات (عراق) تک پھیلائی جانی چاہئیں۔
اس میں مصر، شام، عراق، سعودی عرب، اردن اور لبنان کے حصے شامل کر کے اسرائیل کو ایک "عظیم سلطنت” کی شکل دینے کا خواب پیش کیا جاتا ہے۔
حقیقت
اسرائیل کی سرکاری حکومت یا پالیسی میں اس منصوبے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
لیکن کچھ اسرائیلی سیاستدان، دانشور اور سخت گیر صہیونی تحریکیں وقتاً فوقتاً اس منصوبے کی بات کرتی رہی ہیں۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فلسطین اور اردگرد کے علاقوں میں اسرائیلی بستیوں (Settlements) کی تعمیر اسی طویل مدتی سوچ کا حصہ ہے۔
مسلم دنیا میں اس منصوبے کو ایک سازش سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے اسرائیل خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔
فلسطینی مزاحمت اور عرب ممالک کی مخالفت اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
“گریٹر اسرائیل منصوبہ” ایک انتہا پسند صہیونی نظریہ ہے، جو عملی طور پر مکمل ہونا بہت مشکل ہے لیکن اسرائیل کی پالیسیوں اور اقدامات میں اس سوچ کی جھلک ضرور دیکھی جاتی ہے۔
پاکستان نے متعدد بار اس منصوبے کو سختی سے مسترد کیا ہے اور حالیہ دنوں میں نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے بھی او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ گریٹر اسرائیل کا خواب ناقابلِ قبول ہے۔
او آئی سی کا موقف
اجلاس میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے "گریٹر اسرائیل” کے بیانات اور غزہ پر مکمل فوجی قبضے کے عزائم عالمی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ:
اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے مسلم دنیا کو مزید مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔
قاہرہ میں جلد از جلد غزہ کی تعمیرِ نو کانفرنس بلائی جائے گی۔
عالمی برادری فلسطین کے مسئلے کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر حل کرے۔
سعودی عرب کا گریٹر اسرائیل منصوبہ مسترد، فلسطین کے حل پر دو ٹوک مؤقف
فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی
اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ نے فلسطین کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ:
غزہ میں انسانی امداد کی فوری اور محفوظ رسائی یقینی بنائی جائے۔
جبری بے دخلی اور غیر قانونی قبضے کو ختم کیا جائے۔
اسرائیل پر مزید مؤثر اقتصادی اور سیاسی دباؤ ڈالا جائے۔

پاکستان کا مستقل اصولی موقف
پاکستان طویل عرصے سے فلسطین کے مسئلے پر اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن ممکن نہیں۔ اسحٰق ڈار نے بھی اسی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ:
"پاکستان فلسطین کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔”
"غزہ میں انسانی المیہ روکنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔”
اس غیرمعمولی اجلاس میں ایک مرتبہ پھر یہ پیغام دیا گیا کہ مسلم دنیا فلسطین کے عوام کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ گریٹر اسرائیل منصوبہ پاکستان مسترد کرتا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر جنگ بندی اور فلسطینی عوام کی آزادی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
READ MORE FAQs
سوال 1: گریٹر اسرائیل منصوبہ کیا ہے؟
جواب: یہ ایک صیہونی منصوبہ ہے جس کے تحت اسرائیل اپنی سرحدوں کو بڑھا کر فلسطینی علاقوں پر مکمل قبضہ چاہتا ہے۔
سوال 2: پاکستان نے گریٹر اسرائیل منصوبے کو کیوں مسترد کیا؟
جواب: پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ منصوبہ عالمی امن، فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق اور دو ریاستی حل کے خلاف ہے۔
سوال 3: او آئی سی اجلاس میں اور کون سے مسائل زیرِ بحث آئے؟
جواب: اجلاس میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت، انسانی امداد کی فراہمی، فلسطین کی آزادی اور دو ریاستی حل پر زور دیا گیا۔
سوال 4: پاکستان کا فلسطین پر اصولی موقف کیا ہے؟
جواب: پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرتا رہا ہے اور دو ریاستی حل پر قائم ہے۔
Comments 2