حکومت کی مجوزہ صنعتی پالیسی: برآمدات میں اضافے اور صنعتکاروں کے لیے نئے مواقع
پاکستان کی معیشت اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں توانائی کی بلند قیمتیں، ایکسپورٹ سیکٹر کی محدود استعداد، ٹیکس نظام کی پیچیدگیاں اور سرمایہ کاروں کو درپیش قانونی رکاوٹیں شامل ہیں۔ ان حالات میں حکومت نے ایک جامع مجوزہ صنعتی پالیسی تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد ملکی صنعت کو مستحکم کرنا، برآمدات میں اضافہ کرنا اور سرمایہ کاروں کو ایک محفوظ اور شفاف ماحول فراہم کرنا ہے۔
صنعتی بجلی کے ٹیرف سے کراس سبسڈی کا خاتمہ
پالیسی کے اہم اقدامات میں سب سے بڑا قدم یہ ہے کہ صنعتی شعبے پر بجلی کے ٹیرف سے عائد کراس سبسڈی کو ختم کیا جائے گا۔ موجودہ نظام میں صنعتکاروں کو اضافی بوجھ اس وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے کہ گھریلو اور دیگر صارفین کی سبسڈی کا بوجھ ان پر ڈالا جاتا ہے۔ اس اقدام کے بعد صنعتکاروں کو زیادہ مسابقتی ریٹس پر بجلی ملے گی جس سے پیداواری لاگت میں نمایاں کمی ہوگی اور برآمدات عالمی منڈی میں زیادہ مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکیں گی۔

پیک ریٹس کا خاتمہ
اسی پالیسی کے تحت پیک ریٹس کو بھی منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بجلی کے اوقات کار میں پیک اور آف پیک کی بنیاد پر مختلف ریٹس نے صنعتکاروں کے لیے منصوبہ بندی کو مشکل بنایا ہوا تھا۔ نئی پالیسی کے تحت صنعت کو یکساں نرخوں پر بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی تاکہ سرمایہ کار بغیر کسی اضافی دباؤ کے اپنی مشینری دن رات چلانے کے قابل ہو سکیں۔
انسالوینسی قانون کی متعارفی
حکومت نے صنعتکاروں کے تحفظ کے لیے ایک جامع انسالوینسی (دیوالیہ پن سے بچاؤ) قانون متعارف کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون کے ذریعے ایسے کاروبار جو مالی مشکلات کا شکار ہوں گے، انہیں قانونی تحفظ ملے گا اور وہ مرحلہ وار اپنے مسائل حل کر سکیں گے۔ یہ اقدام عالمی سرمایہ کاری کے ماحول میں پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی صنعتکاروں کو بھی اعتماد فراہم کرے گا۔
نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر سے تحفظ
وزیرِاعظم کی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ صنعتکاروں کو نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے براہِ راست رابطے اور مداخلت سے محفوظ رکھا جائے گا۔ ماضی میں ان اداروں کی جانب سے براہِ راست کارروائیاں سرمایہ کاروں کے لیے مشکلات کا باعث بنتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں صنعتی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اب پالیسی کے تحت ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے ایس ای سی پی (سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) کی منظوری لازمی ہوگی۔
ایس ای سی پی ایکٹ میں ترامیم
اس مقصد کے لیے ایس ای سی پی ایکٹ 1947 کی دفعہ 41-B اور دفعہ 42-A میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کے مطابق کوئی بھی وفاقی یا صوبائی تحقیقاتی ادارہ اسٹاک ایکسچینجز، سینٹرل ڈپازٹریز، کلیئرنگ ہاؤسز، نان بینکنگ فنانس کمپنیاں، انشورنس کمپنیاں یا بروکرز کے خلاف براہِ راست کارروائی نہیں کر سکے گا۔ اگر کسی معاملے پر پہلے ہی ایس ای سی پی کے پاس انکوائری یا کارروائی جاری ہے تو کسی اور ادارے کو اس پر عملدرآمد کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے قانونی تحفظ
پالیسی کے اہم پہلوؤں میں ایک اور قابلِ ذکر فیصلہ یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں، بشمول نائیکوپ (NICOP) ہولڈرز کو بھی قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کو غیر ضروری مداخلت اور ہراسانی سے بچانا ہے تاکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہو اور زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ ملک میں آئے۔
ٹیکس اور ریفنڈ پالیسی میں اصلاحات
مجوزہ صنعتی پالیسی کے مطابق، وزارتِ تجارت نے وزارتِ خزانہ اور وفاقی کابینہ کی مشاورت سے برآمد کنندگان کے لیے ڈرا بیک آف لوکل ٹیکس اینڈ لیویز (DLTL) اسکیم دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے ایکسپورٹرز کو مقامی ٹیکسز اور لیویز پر ریلیف فراہم کیا جائے گا۔
مزید برآں، ایف بی آر نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اربوں روپے کے پھنسے ہوئے ریفنڈز (جن میں سیلز ٹیکس ریفنڈز، کسٹمز ریبیٹس، انکم ٹیکس اور صوبائی ٹیکس شامل ہیں) کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے گی۔ خاص طور پر سیلز ٹیکس ریفنڈز کے حوالے سے ایک جامع میکنزم بنایا جا رہا ہے تاکہ ان کی ادائیگی نہ صرف بروقت ہو بلکہ بتدریج اس عمل کو مزید تیز کیا جائے۔
سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش
حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ تمام اقدامات سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماضی میں قوانین کی پیچیدگیوں، بجلی کی بلند قیمتوں، اور تحقیقاتی اداروں کی براہِ راست کارروائیوں نے صنعتی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ مجوزہ پالیسی ان تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے تاکہ پاکستان کی معیشت کو ایک مستحکم اور پائیدار راستے پر ڈالا جا سکے۔
برآمدات میں اضافے کی حکمتِ عملی
حکومت کا فوکس برآمدات میں نمایاں اضافہ کرنا ہے کیونکہ یہی پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بجلی کے یکساں نرخ، کراس سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکس ریفنڈز کی بروقت ادائیگی، اور ایکسپورٹرز کے لیے DLTL اسکیم جیسے اقدامات براہِ راست ایکسپورٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل، فارما، انجینئرنگ، آئی ٹی اور دیگر شعبے زیادہ بہتر طور پر عالمی منڈی میں جگہ بنا سکیں گے۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات
قانونی تحفظات کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے زیادہ اعتماد حاصل ہوگا۔ خاص طور پر چین، ترکی، خلیجی ممالک اور یورپ سے سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہیں۔ اگر حکومت اس پالیسی کو شفاف انداز میں لاگو کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پاکستان غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI) کے حوالے سے خطے میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔

پاکستان کی مجوزہ صنعتی پالیسی ایک جامع اور دور رس اقدامات پر مشتمل منصوبہ ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اصلاحات، ٹیکس اور ریفنڈ پالیسی میں بہتری، انسالوینسی قانون کا نفاذ، اور صنعتکاروں کو تحقیقاتی اداروں کی مداخلت سے بچانے جیسے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت ملکی صنعت کو نئی زندگی دینا چاہتی ہے۔ اگر یہ پالیسی مؤثر انداز میں لاگو ہو جاتی ہے تو نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت میں بھی دیرپا استحکام آئے گا۔









