اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ — قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار
اسلام آباد : — پاکستان نے قطر کے خلاف اسرائیل کی فضائی جارحیت کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پیغام میں اعلان کیا کہ الجزائر اور صومالیہ کے ساتھ مل کر پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس کی باضابطہ درخواست کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ ہنگامی اجلاس اس لیے ناگزیر ہے تاکہ صورتحال پر غور کیا جا سکے اور عالمی برادری اس سنگین معاملے کو نظر انداز نہ کرے۔”
گزشتہ روز اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فضائی حملہ کیا جس کا نشانہ حماس کی قیادت کو قرار دیا گیا۔ اسرائیلی دعووں کے برعکس، حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ اس حملے میں محفوظ رہے، تاہم ان کے بیٹے، قریبی معاون اور چار دیگر افراد شہید ہو گئے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب حماس کے مذاکرات کار امریکی تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے پر غور کرنے کے لیے ملاقات کر رہے تھے۔ مبصرین کے مطابق یہ حملہ نہ صرف مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے بلکہ اس نے قطر کی سلامتی کے بارے میں بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
پاکستان کا مؤقف — مکمل حمایت اور مذمت
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اپنے پیغام میں کہا:
"پاکستان برادر ملک قطر کی حکومت اور عوام کے ساتھ اپنی مکمل یکجہتی اور پختہ حمایت کا اظہار کرتا ہے۔ اسرائیل کی بلااشتعال جارحیت نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے طے شدہ اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔”
پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے باضابطہ اعلامیے میں کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی "جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ پالیسی” کا تسلسل ہے جس کا مقصد خطے کو مزید غیر مستحکم کرنا ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کا یہ اقدام عالمی امن و سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہے اور عالمی برادری کو اسے فوری طور پر روکنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔
دوحہ پر اسرائیلی حملہ: حماس کی قیادت، قطر کی پوزیشن، امریکا کی ناراضگی اور عالمی ردعمل
سلامتی کونسل کا کردار اور امکانات
الجزائر اور صومالیہ کے ساتھ مل کر پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے۔ یہ قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب سلامتی کونسل پہلے ہی غزہ اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ اجلاس طلب کیا جاتا ہے تو اسرائیلی جارحیت، قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور خطے میں امن و امان پر اس کے اثرات پر تفصیلی بحث ہو گی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آیا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس اسرائیل کے خلاف کوئی مؤثر قرارداد منظور کر سکے گی یا نہیں۔ ماضی کے تجربات سے یہ بات عیاں ہے کہ اسرائیل سے متعلق قراردادوں پر اکثر ویٹو پاور رکھنے والے ممالک میں اختلاف پایا جاتا ہے، خصوصاً امریکا کی پوزیشن ہمیشہ اہم رہی ہے۔
عالمی برادری کا ردِعمل
قطر پر حملے کے فوراً بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، اردن، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک نے اس جارحیت کی کھل کر مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ایسے اقدامات خطے کو مزید غیر مستحکم کرتے ہیں اور امن کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔”
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر امن مذاکرات کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کی اس کارروائی کو "قطر کی خودمختاری پر کھلا حملہ” قرار دیا۔
اسرائیل کی پوزیشن اور دعوے
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا، کیونکہ ان کے بقول قطر میں موجود حماس کا سیاسی دفتر خطے میں "دہشت گردانہ سرگرمیوں” کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج کے اندر بھی اس بات پر خدشات پائے جاتے ہیں کہ اس حملے میں کوئی بڑا رہنما ہلاک نہیں ہوا بلکہ نسبتاً جونیئر افراد جان سے گئے ہیں۔
امریکا میں اسرائیلی سفیر نے کہا کہ اگر اس بار ہدف حاصل نہیں ہوا تو "اگلی بار ضرور نشانہ بنایا جائے گا۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کو قطر کے عوام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کا نشانہ صرف حماس ہے۔
امریکا کا محتاط ردِعمل
امریکی ذرائع کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حملے پر خوش نہیں تھے کیونکہ انہیں اس فیصلے کے بارے میں بروقت اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے وضاحت کی کہ امریکا کو حملے سے صرف چند لمحے پہلے آگاہ کیا گیا اور قطر کو پیشگی اطلاع دینے کی کوشش بھی ناکام رہی۔
ٹرمپ نے کہا کہ "ہم یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں، لیکن اسرائیل نے جس طرح کارروائی کی اس سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔” یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان اس معاملے پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

پاکستان اور قطر کے تعلقات
پاکستان اور قطر (pak qatar relations)ہمیشہ قریبی تعلقات رکھتے آئے ہیں۔ توانائی، سرمایہ کاری، تجارت اور دفاعی تعاون کے کئی معاہدے دونوں ملکوں کے درمیان موجود ہیں۔ حالیہ واقعے کے بعد پاکستان نے برملا اعلان کیا ہے کہ وہ قطر کی خودمختاری اور سلامتی کے دفاع میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
وزارت خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان برادر ملک قطر کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہے گا اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ہر سطح پر اس کا ساتھ دے گا۔”
قطر پر اسرائیلی حملے نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئی کشمکش میں دھکیل دیا ہے۔ ایک طرف اسرائیل اپنے عسکری اہداف کے نام پر قطر کو بھی میدانِ جنگ بنانے جا رہا ہے، تو دوسری طرف عالمی برادری اس عمل کو ناقابلِ قبول قرار دے رہی ہے۔
پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معاملہ اب صرف قطر اور اسرائیل کے درمیان نہیں رہا بلکہ ایک بین الاقوامی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر عالمی برادری نے بروقت اور فیصلہ کن کردار ادا نہ کیا تو خطہ مزید انتشار اور جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔
In view of the unprovoked illegal Israeli aggression against the brotherly State of #Qatar, #Pakistan, along with #Algeria and #Somalia, has requested an Emergency meeting of the UN Security Council, to discuss the situation and seize itself of this grave matter. #Pakistan…
— Ishaq Dar (@MIshaqDar50) September 10, 2025