پاکستان کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کے اعلانات کا خیر مقدم
اسلام آباد، عالمی سفارت کاری میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب کئی مغربی ممالک — جن میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر شامل ہیں — نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ان تاریخی فیصلوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے ہیں بلکہ عالمی امن و انصاف کے بیانیے کو بھی نئی زندگی دی ہے۔
پاکستان، جو ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کا حامی رہا ہے، نے ان اقدامات کا پُرجوش خیر مقدم کیا ہے۔ نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں ان فیصلوں کو فلسطینی عوام کی تاریخی جدوجہد کی فتح قرار دیا اور اقوامِ عالم سے اپیل کی کہ وہ بھی بین الاقوامی قانون اور انصاف کے تقاضوں کے تحت فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کریں۔
پاکستان کا دیرینہ مؤقف: فلسطین کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی
پاکستان کا فلسطین کے حوالے سے مؤقف کوئی وقتی سیاسی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور اصولی پالیسی کا مظہر ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے 1988 میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا۔ اُس وقت دنیا کے بہت سے ممالک اس مسئلے پر خاموش تھے، لیکن پاکستان نے کھل کر فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کی۔
دفترِ خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق:
"پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی ہے، اور ہم فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کے حق میں ہیں۔”
یہ مؤقف محض الفاظ تک محدود نہیں رہا؛ پاکستان نے ہر بین الاقوامی فورم پر فلسطین کے لیے آواز اٹھائی ہے، چاہے وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو، او آئی سی، یا کوئی دوطرفہ سفارتی نشست۔
دو ریاستی حل: منصفانہ اور پائیدار امن کی جانب راہ
نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے اپنے بیان میں دو ریاستی حل (Two-State Solution) کو ہی مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کا واحد راستہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا:
"دو ریاستی حل منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ہے۔”
اس نکتے پر بین الاقوامی برادری میں بھی وسیع اتفاق پایا جاتا ہے۔ یہی وہ حل ہے جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، عرب لیگ کے امن منصوبے، اور عالمی برادری کی متعدد تجاویز میں بارہا پیش کیا جا چکا ہے۔
لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں اسرائیل کی جانب سے غیرقانونی بستیوں کی تعمیر، فوجی جارحیت، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے اس حل کو مسلسل سبوتاژ کیا ہے۔
پاکستان کی یہ سفارتی کوشش اس جانب اشارہ ہے کہ عالمی برادری کو صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ فلسطینی عوام کی قربانیوں کا ازالہ ممکن ہو سکے۔
سعودی عرب و فرانس کی میزبانی میں اہم اجلاس
حال ہی میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے کی۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ایسے وقت میں ہوا جب کئی مغربی ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے تھے، جس سے اجلاس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔
پاکستان نے اس اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے "اعلان نیویارک” کی بھرپور حمایت کی۔ دفترِ خارجہ نے بیان میں کہا:
"اعلان نیویارک کی حمایت منصفانہ و پائیدار امن سے پاکستان کی وابستگی کا اظہار ہے۔”
یہ اجلاس ایک واضح پیغام تھا کہ عالمی طاقتیں اب فلسطینی ریاست کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر سنجیدہ ہو رہی ہیں، اور یہ تحریک کسی ایک خطے یا مذہب تک محدود نہیں رہی۔
فلسطینی قیادت کی اپیل اور عالمی برادری کا ردعمل
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری سے فلسطین کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا:
"ہم ان تمام ممالک کے مشکور ہیں جنہوں نے ہماری ریاست کو تسلیم کیا۔ ہم سعودی عرب اور فرانس کے فعال کردار کی تعریف کرتے ہیں۔”
ساتھ ہی ساتھ انہوں نے فلسطینی گروہوں، خصوصاً حماس اور دیگر عسکری دھڑوں سے اپیل کی کہ وہ ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کریں، تاکہ ایک متحدہ فلسطینی حکومت کے تحت عالمی سطح پر خودمختاری حاصل کی جا سکے۔
یہ اپیل ایک سیاسی بلوغت کی نشانی ہے، جو بتاتی ہے کہ فلسطینی قیادت عالمی پلیٹ فارمز پر مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
سعودی عرب کا مؤقف: امن کا تاریخی موقع
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اجلاس میں کہا:
"یہ کانفرنس دو ریاستی حل کے تحت امن کے قیام کا تاریخی موقع ہے۔ ہم فرانس اور دیگر ممالک کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔”
سعودی عرب، جو کئی دہائیوں سے فلسطینی کاز کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے، اب ایک کلیدی ثالث کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس کی کوششیں خطے میں سیاسی توازن پیدا کرنے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
عالمی سفارت کاری میں پاکستان کا ابھرتا کردار
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں حالیہ برسوں میں فعال سفارت کاری (Proactive Diplomacy) کا رجحان واضح نظر آ رہا ہے۔ چاہے وہ کشمیر کا مسئلہ ہو، افغانستان کا بحران، یا اب فلسطین کا معاملہ — پاکستان عالمی سطح پر اپنا بیانیہ موثر انداز میں پیش کر رہا ہے۔
نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کی نمائندگی اور اعلان نیویارک کی بھرپور حمایت اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ پاکستان خطے اور دنیا میں امن، انصاف اور انسانی حقوق کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
فلسطین کی آزادی — ایک حقیقت کے قریب
آج جب دنیا کے کئی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، یہ صرف سفارتی کامیابی نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے جذبۂ حریت، قربانیوں اور استقامت کا اعتراف ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کا مسلسل ساتھ دینا اس عمل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
یہ وقت ہے کہ دنیا صرف الفاظ کی حد تک حمایت نہ کرے، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن بنانے، اسرائیلی جارحیت کو روکنے، اور بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے میں مدد دے۔
پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ صرف ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک اصولی، انسانی اور سفارتی مؤقف رکھنے والا ملک ہے — جو ظلم کے خلاف اور انصاف کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔
