پانی کا بحران اور سیلاب: پاکستان کب سنجیدہ ہوگا؟
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن ان وسائل کو سنبھالنے اور مؤثر انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیت سے مسلسل محروم دکھائی دیتا ہے۔ ان وسائل میں سب سے اہم اور بنیادی وسیلہ پانی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا وطن عزیز ہر سال دو انتہاؤں کا سامنا کرتا ہے: یا تو شدید پانی کی قلت ہوتی ہے یا پھر اچانک آنے والے سیلاب تباہی مچا دیتے ہیں۔ دونوں صورتیں نہ صرف انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن چکی ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
پانی: حیات انسانی کی بنیاد
پانی زندگی کی بنیادی ترین ضرورت ہے۔ انسانی تہذیب کی ابتدا ہمیشہ پانی کے قریب سے ہوئی۔ قدیم زمانے میں بھی انسان دریاؤں، نہروں اور چشموں کے قریب بستیاں بساتا تھا۔ فصلیں پانی سے اگتی ہیں، صنعتیں پانی سے چلتی ہیں، اور انسان خود 70 فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔
مگر یہی پانی جب کبھی ضرورت سے کم ہو جائے تو قحط، بیماری، بھوک اور پیاس کی شکل میں عذاب بن جاتا ہے۔ اور جب یہ اپنی حد پار کر جائے تو سیلاب کی صورت میں بستیاں اجاڑ دیتا ہے، زندگیوں کے چراغ بجھا دیتا ہے۔
پانی کی قلت: ایک مستقل خطرہ
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں 70 فیصد سے زائد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو پانی کی قلت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس کے مطابق اگر حالات جوں کے توں رہے تو 2025 تک پاکستان میں پانی کی قلت ایک سنگین انسانی بحران میں بدل جائے گی۔
آبادی میں مسلسل اضافہ، شہری آبادی کی توسیع، غیر مؤثر آبی پالیسی، ناقص انفراسٹرکچر، اور پانی کے غیر ضروری ضیاع نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سیلاب: ہر سال کی تباہی
دوسری طرف، ہر سال مون سون کے موسم میں پاکستان کے کئی علاقے سیلاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ کبھی پنجاب میں، کبھی سندھ میں، کبھی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہزاروں گھر، کھیت، سڑکیں اور پل پانی میں بہہ جاتے ہیں۔
2022 کے بدترین سیلاب نے ملکی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا۔ ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے، لاکھوں بے گھر ہو گئے، اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ عالمی سطح پر بھی اس سیلاب نے پاکستان کو مظلوم و لاچار ملک کے طور پر پیش کیا، لیکن کیا ہم نے اس سے کوئی سبق سیکھا؟
بدقسمتی سے ہر سال ہم صرف بیان بازی کرتے ہیں، وقتی امدادی کیمپ لگاتے ہیں، اور پھر اگلے مون سون تک سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
تربیلا کے بعد خاموشی: آبی منصوبوں کا فقدان
پاکستان میں آبی ذخائر کی بات کی جائے تو سب سے پہلے تربیلا ڈیم کا ذکر آتا ہے جو 1976 میں تعمیر ہوا۔ اس کے بعد کالا باغ ڈیم پر تنازعات نے اسے سیاسی جنگ کا میدان بنا دیا، اور آج تک کوئی بڑا آبی منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔ منگلا ڈیم پہلے ہی اپنی گنجائش سے کم سطح پر کام کر رہا ہے، اور نئے ڈیمز کا خواب صرف فائلوں میں دفن ہو کر رہ گیا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری بدقسمتی کی داستان کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر 1976 کے بعد بھی ہر 10 سال میں ایک بڑا آبی ذخیرہ بنا لیا جاتا، تو آج ہم نہ صرف پانی کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہوتے بلکہ بجلی کے بحران پر بھی قابو پا چکے ہوتے۔
واٹر مینجمنٹ میں ناکامی
پاکستان کا موجودہ واٹر مینجمنٹ سسٹم انتہائی فرسودہ اور غیر مؤثر ہے۔ زراعت کے لیے استعمال ہونے والا 90 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے، کیونکہ نہری نظام پرانے وقتوں کا ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
بارش کے پانی کو ضائع ہونے دیا جاتا ہے، نہ تو اس کو ذخیرہ کرنے کا کوئی جامع نظام ہے، نہ ہی زیر زمین پانی کے سطح کو ری چارج کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں نکاسی آب کا ناقص نظام سیلاب کو مزید خطرناک بنا دیتا ہے۔
حکومت کی ذمہ داری اور کردار
اس سنگین مسئلے میں حکومت وقت کا کردار نہایت اہم ہے۔ لیکن افسوس کہ ہماری حکومتیں ہمیشہ ردعمل کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں، جبکہ ضرورت پیشگی منصوبہ بندی کی ہے۔ کوئی مستقل اور دیرپا حکمت عملی سامنے نہیں آتی۔ ڈیمز کی تعمیر کا معاملہ ہو یا سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات، سب کچھ وقتی اور سیاسی نوعیت کا ہوتا ہے۔
جب تک ریاست پانی کے مسئلے کو قومی سلامتی کے تناظر میں نہیں دیکھے گی، تب تک ہم ہر سال یا تو پیاسے مریں گے یا سیلاب میں بہیں گے۔
کیا کیا جا سکتا ہے؟ – ممکنہ حل
- نئے ڈیمز کی فوری تعمیر
بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور دیگر منصوبوں کو فوری بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ ان منصوبوں میں تاخیر صرف نقصان ہی نہیں بلکہ تباہی ہے۔
- واٹر پالیسی پر عملدرآمد
2018 میں پاکستان کی پہلی قومی واٹر پالیسی بنی، مگر اس پر عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ اس پالیسی کو زمین پر نافذ کرنا ہوگا۔
- بارش کے پانی کا ذخیرہ
شہری اور دیہی علاقوں میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے "ریئن واٹر ہارویسٹنگ” سسٹم رائج کیا جائے۔
- جدید زرعی نظام
زراعت میں ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹمز جیسے جدید طریقے متعارف کروائے جائیں تاکہ پانی کا ضیاع کم ہو۔
- سیلاب کی پیشگی اطلاع کا نظام
ماڈرن سیٹلائٹ اور موسمیاتی ٹیکنالوجی کی مدد سے سیلاب کی پیشگی وارننگ دی جائے تاکہ جانی و مالی نقصان کم ہو۔
- آگاہی مہم
عوام کو پانی کے استعمال میں احتیاط، ذخیرہ کرنے کے طریقے، اور ضیاع کو روکنے کی ترغیب دی جائے۔
پانی زندگی ہے، اور زندگی کے دشمنوں میں بدانتظامی، نااہلی، اور سیاسی مفادات سب سے آگے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے پانی کا ضیاع، سیلاب کی تباہی، اور آبی ذخائر کی کمی کوئی عام مسئلہ نہیں، بلکہ وجود کا مسئلہ ہے۔
ہمیں اب بھی ہوش آ جانا چاہیے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، پانی کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں، اور خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب بھی اگر ہم نے ایک جامع اور دیرپا پالیسی نہ اپنائی تو آنے والے وقت میں نہ صرف ہماری زراعت، صنعت، اور معیشت تباہ ہو جائے گی، بلکہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
