کیا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی کھانا نقصان دہ ہے؟
سردیوں کا موسم آتے ہی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی ایک دلچسپ بحث بن جاتی ہے۔ پارکوں میں بیٹھے لوگ، شام کی چائے کے ساتھ مونگ پھلیاں کھاتے نظر آتے ہیں، لیکن جنہیں شوگر کا مرض لاحق ہو، وہ اکثر سوچ میں پڑ جاتے ہیں:
“کیا ہمیں بھی یہ کھانی چاہیے؟ کہیں نقصان تو نہیں ہوگا؟”
مونگ پھلی کی حقیقت — گری نہیں، ایک پھلی
عام طور پر لوگ مونگ پھلی کو گری سمجھتے ہیں، مگر دراصل یہ ایک پھلی دار غذا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی غذائیت سے بھرپور ہے کیونکہ اس میں پروٹین، فائبر، وٹامنز، منرلز اور صحت مند چکنائیاں پائی جاتی ہیں۔
28 گرام مونگ پھلی میں تقریباً 161 کیلوریز، 7.3 گرام پروٹین، 4.5 گرام کاربوہائیڈریٹس، 26 ملی گرام کیلشیم اور 200 ملی گرام پوٹاشیم شامل ہوتے ہیں — یہ تمام اجزاء جسم کو توانائی دیتے ہیں۔
بلڈ شوگر پر مونگ پھلی کے اثرات
طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کا گلائسمک انڈیکس (GI) محض 14 ہے۔
یعنی اسے کھانے سے بلڈ شوگر میں بہت کم اضافہ ہوتا ہے۔
اس لیے یہ ان مریضوں کے لیے بہترین انتخاب ہو سکتی ہے جو شوگر لیول کو متوازن رکھنا چاہتے ہیں۔
بس ایک شرط ہے: اعتدال میں کھانا ضروری ہے۔
دل کی صحت کے لیے مفید
ذیابیطس کے مریضوں میں دل کے امراض عام ہوتے ہیں۔ مونگ پھلی میں موجود صحت مند چکنائی دل کے لیے فائدہ مند سمجھی جاتی ہے۔
تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ یا ہفتے میں چند بار مونگ پھلی یا دیگر گریاں کھاتے ہیں، ان میں امراضِ قلب کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہو جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی دل کی صحت کے لیے ایک مفید غذا ہے۔
فائبر کی موجودگی اور فائدے
مونگ پھلی میں فائبر کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، جو نظامِ ہضم کو درست رکھنے اور شوگر کے جذب ہونے کے عمل کو سست کرنے میں مددگار ہے۔
تحقیقات بتاتی ہیں کہ فائبر کا زیادہ استعمال ذیابیطس ٹائپ 2 سے بچاؤ میں 20 سے 30 فیصد تک مدد دیتا ہے۔
اسی لیے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی ایک صحت مند ناشتہ یا ہلکی غذا ثابت ہو سکتی ہے۔
وزن میں کمی میں مددگار
یہ بات دلچسپ ہے کہ مونگ پھلی میں کیلوریز زیادہ ہونے کے باوجود، اگر اسے اعتدال میں کھایا جائے تو یہ وزن کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ فائبر اور پروٹین کا امتزاج پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرا رکھتا ہے، جس سے غیر ضروری کھانے کی خواہش کم ہوتی ہے۔
احتیاطیں اور ممکنہ نقصانات
ہر فائدے کے ساتھ کچھ احتیاط بھی ضروری ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی کھانے میں چند خطرات بھی پوشیدہ ہو سکتے ہیں، مثلاً:
اومیگا 6 فیٹی ایسڈز کی زیادتی
مونگ پھلی میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اگر خوراک میں اومیگا 3 کی کمی ہو تو یہ فیٹی ایسڈ جسم میں ورم بڑھا سکتا ہے، جس سے ذیابیطس کی علامات میں شدت آسکتی ہے۔
الرجی کا خطرہ
کچھ افراد میں مونگ پھلی شدید الرجی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسے افراد کو اسے کھانے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
زیادہ کیلوریز
اگرچہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی مفید ہے، لیکن اس میں کیلوریز زیادہ ہیں۔ اگر آپ اسے زیادہ مقدار میں کھائیں گے تو وزن بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، جو خود ذیابیطس کے لیے نقصان دہ ہے۔
اعتدال ہی صحت کا راز
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی تب ہی مفید ہے جب اسے متوازن غذا کا حصہ بنایا جائے۔
دن میں تقریباً 20–30 گرام مونگ پھلی مناسب مقدار سمجھی جاتی ہے۔
ماہرین کا مشورہ
اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو مونگ پھلی کھانے سے پہلے درج ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
بغیر نمک والی مونگ پھلی استعمال کریں۔
بھنی ہوئی یا اُبلی ہوئی مونگ پھلی بہتر ہے، تلی ہوئی نہیں۔
اگر آپ انسولین یا شوگر کی دوا لیتے ہیں تو مقدار کے بارے میں ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔
اپنی روزانہ کیلوریز کے حساب سے خوراک کو متوازن رکھیں۔
نوجوانوں میں ذیابیطس کا اضافہ ٹین ایجر ذیابیطس کا شکار بڑھنے لگا
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی نقصان دہ نہیں، بلکہ صحت بخش ثابت ہو سکتی ہے — بس شرط یہ ہے کہ اسے اعتدال میں کھایا جائے۔
یہ نہ صرف بلڈ شوگر کو متوازن رکھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ دل کی صحت اور وزن کنٹرول کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔









