امیت شاہ کا غصہ، چدم برم کی کلین چٹ: پہلگام حملے پر بھارت تقسیم
26 افراد کی ہلاکت، بھارت کا فوری الزام، پاکستان کی مذمت — کیا یہ حملہ سیاست زدہ ہے یا سچائی پر مبنی؟
پہلگام — جو کہ مقبوضہ کشمیر کا ایک خوبصورت مگر متنازعہ علاقہ ہے — ایک بار پھر خون آلود ہوا جب ایک پُراسرار حملے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس سانحے نے نہ صرف پورے بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ہلچل مچا دی۔ جہاں عوام سوگوار ہے، وہیں بھارت کی حکومت نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تحقیق کے براہ راست پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔
مگر کیا یہ الزام سچ پر مبنی ہے؟ یا یہ سب ایک پہلے سے طے شدہ سیاسی منصوبہ ہے؟ آئیے، اس پورے واقعے کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔
حملے کی تفصیلات: پہلگام کا خون آلود منظر
مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقے پہلگام میں اس وقت دہشت پھیل گئی جب نامعلوم افراد نے ایک سیاحتی مقام پر اچانک فائرنگ شروع کر دی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد جان کی بازی ہار گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ متاثرین میں عام شہری، مقامی مزدور اور چند پولیس اہلکار شامل تھے۔
واقعہ کے فوراً بعد، بھارتی حکومت نے بیان جاری کیا کہ یہ حملہ "پاکستان سے آئے دہشتگردوں” نے کیا ہے، حالانکہ جائے وقوعہ سے ابھی ابتدائی شواہد بھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے۔
پی چدم برم کا چونکا دینے والا بیان
بھارتی سیاست میں طوفان تب آیا جب سابق وزیرداخلہ پی چدم برم نے ایک معروف ٹی وی شو میں کہا:
"ابھی تک حکومت کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ یہ دہشتگرد پاکستان سے آئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بھارت میں ہی موجود ہوں اور یہیں تربیت یافتہ ہوں۔”
ان کے اس بیان نے بھارتی سیاست، میڈیا اور سیکیورٹی اداروں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ پہلی بار ایک سینئر بھارتی رہنما نے کھلے عام اعتراف کیا کہ بغیر ثبوت الزام تراشی قومی مفاد کے خلاف ہے۔
امیت شاہ کا جارحانہ ردعمل: “پاکستان کو کلین چٹ کیوں؟”
بھارت کے موجودہ وزیرداخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں چدم برم پر شدید تنقید کی اور کہا:
"چدم برم کو پاکستان کی حمایت کا شوق ہے؟ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ دہشتگردوں کے قبضے سے پاکستان میں بنی چاکلیٹ، سموسے اور بیٹریاں ملی ہیں۔”
یہ بیان سوشل میڈیا پر مذاق کا نشانہ بن گیا۔ کئی صارفین نے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ کیا اب چاکلیٹ بھی قومی سلامتی کا ثبوت ہو گئی ہے؟
پاکستان کا مؤقف: مذمت، تحقیق کی پیشکش، مگر انکار
پاکستان نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور واضح مؤقف اپنایا کہ کسی بھی قسم کی دہشتگردی ناقابل قبول ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بیان جاری کیا:
"پاکستان ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے اور اگر بھارت چاہے تو ہم غیر جانبدارانہ تحقیقات میں مکمل تعاون فراہم کریں گے۔”
مگر بھارت نے اس پیشکش کو رد کر دیا، اور میڈیا نے پاکستان کے مؤقف کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے پروپیگنڈا بیانیہ جاری رکھا۔
بھارتی پروپیگنڈا: ثبوت نہیں، بیانات کی گھن گرج
بھارتی میڈیا نے حسب روایت واقعے کو پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے کا موقع بنا لیا۔ "پاکستانی دہشتگرد”، "اسلامی شدت پسند”، "سرحد پار حملہ” جیسے الفاظ مسلسل نشر کیے گئے، حالانکہ زمینی حقائق ابھی تک مبہم تھے۔
سوال یہ ہے:
کیا دہشتگردوں کی شناخت ہوئی؟
کیا کوئی ویڈیو یا تصویر جاری کی گئی؟
کیا کوئی گرفتاری یا اعتراف ہوا؟
ان سب سوالات کے جواب ابھی تک “نہیں” میں ہیں۔
جعلی مقابلے: سچ کو چھپانے کی کوشش
واقعے کے چند دن بعد بھارت نے “آپریشن مہادیو” کے نام پر جعلی مقابلوں کا آغاز کیا۔ سرینگر کے قریب داچھی گام میں تین کشمیری نوجوانوں کو “دہشتگرد” قرار دے کر شہید کر دیا گیا۔
بعد میں مقامی ذرائع اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان نوجوانوں کی شہادت کو جعلی مقابلہ قرار دیا۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی واقعے پر تشویش ظاہر کی اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بھارتی سیاسی تقسیم: اندرونی اختلافات اُبھرنے لگے
چدم برم کے بیان کے بعد بھارت میں سیاسی تقسیم مزید واضح ہو گئی۔ کانگریس اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کی جانب سے جلد بازی اور پروپیگنڈے پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ:
"بی جے پی سرکار ہر دہشتگرد حملے کو پاکستان کے خلاف ہتھیار بنا کر الیکشن کے لیے استعمال کرتی ہے۔”
عالمی تاثر: بھارت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے
بین الاقوامی میڈیا، خاص طور پر بی بی سی، الجزیرہ، نیویارک ٹائمز اور ڈوئچے ویلے نے اس واقعے کو سیاست زدہ قرار دیا۔ ان اداروں نے اپنی رپورٹس میں لکھا کہ:
"بھارت بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگا کر اپنی سیاسی مہم کو آگے بڑھاتا ہے، جو علاقائی استحکام کے لیے خطرناک ہے۔”
اقوام متحدہ کے ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا:
"جب حکومتیں دہشتگردی جیسے حساس معاملے کو سیاست کے لیے استعمال کریں تو اعتماد کا بحران پیدا ہوتا ہے۔”
تجزیہ: دہشتگردی یا سیاسی اسکرپٹ؟
یہ سوال اب پوری دنیا کے سامنے ہے کہ آیا یہ حملہ واقعی پاکستان سے تعلق رکھتا تھا یا بھارت میں موجود شدت پسند عناصر کا عمل تھا؟
کیا اس واقعے کو الیکشن سے پہلے عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟
کیا بھارتی میڈیا اور سیکیورٹی ادارے صرف ریٹنگ اور سیاسی پوائنٹس کے لیے کام کر رہے ہیں؟
سچائی، شفافیت اور ذمہ داری کی ضرورت
پہلگام حملے کا اصل سبق یہ ہے کہ:
- بغیر ثبوت الزام تراشی بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔
- سیاسی مفادات کے لیے دہشتگردی کا استعمال ناقابلِ قبول ہے۔
- خطے میں امن تبھی ممکن ہے جب سچائی کو اہمیت دی جائے۔
پاکستان نے بار بار تحقیقات کی پیشکش کی، مگر بھارت نے ہمیشہ کی طرح “نہیں سننا” ہی بہتر سمجھا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور کرکٹ، ثقافت، تجارت اور سیکیورٹی جیسے شعبوں میں ایک متوازن، غیر جانبدار اور سچ پر مبنی مؤقف اپنائے۔
عوامی پیغام:
سچ کا ساتھ دیں، پروپیگنڈا کا نہیں
تحقیق سے پہلے فیصلہ نہ کریں
انسانی جانوں کو سیاسی بیانیوں میں نہ الجھائیں