علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ، سہیل آفریدی کا انتخاب اور قانونی پیچیدگیاں ، سیاسی منظرنامہ مزید الجھ گیا، پشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے حلف اور انتخاب سے متعلق کیسز پر فیصلہ محفوظ
پشاور : — خیبرپختونخوا میں سیاسی منظرنامہ ایک بار پھر غیر یقینی صورت اختیار کر گیا ہے۔ صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب اور ان کی حلف برداری سے متعلق دو علیحدہ عدالتی درخواستوں نے سیاسی فضا کو گرما دیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے تحریکِ انصاف کے نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی حلف برداری کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جبکہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کو چیلنج کرنے والی دوسری درخواست بھی سماعت کے لیے مقرر کرلی گئی ہے۔
عدالت میں دلائل مکمل، فیصلہ محفوظ
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسرت ہلالی کی سربراہی میں بینچ نے پیر کے روز نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی حلف برداری کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔
تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ گورنر آئینی ذمہ داری کے تحت وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے پابند ہیں، تاہم انہوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر حلف سے گریز کیا، جو آئین کے آرٹیکل 130 کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے وکیل بیرسٹر عامر جاوید نے مؤقف اختیار کیا کہ جب تک سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہیں ہوتا، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب اور حلف دونوں غیر آئینی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’آئین کے تحت وزیراعلیٰ کا عہدہ صرف اس وقت خالی سمجھا جائے گا جب گورنر استعفیٰ قبول کرے، جبکہ اس وقت تک علی امین گنڈاپور قانونی طور پر اپنے عہدے پر فائز ہیں۔‘‘
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آئندہ چند روز میں سنایا جائے گا۔
سیاسی تبدیلیوں کا طوفان
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پارٹی قیادت، خصوصاً عمران خان کی ہدایت پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کے استعفے کے بعد پارٹی نے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کیا اور صوبائی اسمبلی سے ان کے حق میں ووٹ دلوائے۔
تاہم گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے تاحال علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہیں کیا، جس سے آئینی پیچیدگی پیدا ہوگئی۔ گورنر کا مؤقف ہے کہ استعفیٰ کی تصدیق ضروری مراحل سے گزرے بغیر قابلِ قبول نہیں، اس لیے وزیراعلیٰ کا عہدہ تاحال خالی نہیں سمجھا جا سکتا۔
اپوزیشن کا بائیکاٹ، نیا وزیراعلیٰ غیر قانونی قرار
گزشتہ روز خیبرپختونخوا اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ جب تک علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ آئینی طور پر منظور نہیں ہوتا، اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب غیر قانونی ہے۔
جے یو آئی (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ اس انتخاب کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما لطف الرحمٰن نے اسی مؤقف پر پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی، جسے عدالت نے سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا استعفا گم، 34 گھنٹے بعد بھی گورنر ہاؤس کو موصول نہ ہو سکا
جے یو آئی (ف) کی درخواست — استعفیٰ منظور ہوئے بغیر نیا انتخاب غیر قانونی
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ:
’’جب تک موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ گورنر کی جانب سے باضابطہ طور پر منظور نہیں ہوتا، کسی دوسرے شخص کو وزیراعلیٰ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
درخواست میں گورنر خیبرپختونخوا، صوبائی حکومت، اسمبلی اسپیکر اور نومنتخب وزیراعلیٰ کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار لطف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ نئے وزیراعلیٰ کا الیکشن آئینی تقاضوں کے برعکس ہوا ہے، اس لیے عدالت اسے کالعدم قرار دے۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل بینچ اس درخواست کی سماعت کرے گا۔

آئینی نکتہ — آرٹیکل 130 کی تشریح
قانونی ماہرین کے مطابق، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 130 (6) کے تحت وزیراعلیٰ اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہتا ہے جب تک گورنر اس کا استعفیٰ قبول نہ کرے۔
اگر گورنر کسی سیاسی یا انتظامی وجوہ سے استعفیٰ قبول نہ کرے تو وزیراعلیٰ کا عہدہ آئینی طور پر برقرار رہتا ہے، خواہ اسمبلی نے نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا ہو۔
سینئر آئینی ماہر اکرم چوہدری ایڈووکیٹ کے مطابق:
’’یہ معاملہ مکمل طور پر آئینی تشریح کا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے متعلق طے کرنا ہوگا کہ اگر گورنر استعفیٰ قبول کرنے میں تاخیر کرے تو کیا اسمبلی اپنی اکثریت سے نیا وزیراعلیٰ منتخب کر سکتی ہے یا نہیں۔‘‘
سہیل آفریدی کی پوزیشن — "پارٹی کا فیصلہ، عوام کا اعتماد”
دوسری جانب نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ وہ پارٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بنے ہیں اور انہیں اکثریتی ووٹ حاصل ہیں۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا:
’’میں نے وزیراعلیٰ کا الیکشن آئین کے مطابق جیتا ہے، اب گورنر پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر مجھے حلف دلائیں۔ صوبے میں انتظامی کام رکے ہوئے ہیں، اور گورنر کی تاخیر عوامی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔‘‘
سہیل آفریدی نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ 94 ارکان اسمبلی کی حمایت موجود ہے اور ’’پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں واضح اکثریت رکھتی ہے۔‘‘
گورنر ہاؤس کا مؤقف — “آئینی مراحل مکمل نہیں ہوئے”
گورنر ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ ابھی جانچ کے مراحل میں ہے۔
بیان میں کہا گیا:
’’استعفیٰ گورنر سیکریٹریٹ کو موصول ہوا ہے، تاہم آئینی تقاضے پورے کیے بغیر اس کی منظوری نہیں دی جا سکتی۔ جیسے ہی تصدیق مکمل ہوگی، اگلے مرحلے پر عمل کیا جائے گا۔‘‘
گورنر ہاؤس کے مطابق، آئینی تقاضوں کے بغیر حلف کی تقریب منعقد کرنا ’’اختیارات سے تجاوز‘‘ ہوگا۔
پشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا فیصلہ— “دوہری آئینی پوزیشن”
آئینی مبصرین کے مطابق خیبرپختونخوا اس وقت ایک دوہری آئینی پوزیشن میں ہے۔
ایک جانب علی امین گنڈاپور بحیثیت وزیراعلیٰ برقرار ہیں کیونکہ ان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا،
دوسری جانب اسمبلی نے سہیل آفریدی کو اکثریتی ووٹ سے وزیراعلیٰ منتخب کیا ہے۔
اس صورت حال نے صوبائی حکومت، بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک غیر واضح آئینی بحران میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین کی رائے — “یہ معاملہ وفاق تک جا سکتا ہے”
سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگرپشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے متعلق گورنر کے مؤقف کے برعکس فیصلہ ہوا تو یہ مقدمہ وفاقی سطح پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر پشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے حق میں فیصلہ ہوا تو یہ مثال پورے ملک میں گورنر کے اختیارات کی نئی تشریح بن جائے گی۔”
اسی طرح ماہر قانون عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کے نمائندہ وکیل نے کہا کہ ’’یہ کیس صرف خیبرپختونخوا نہیں بلکہ مستقبل میں وفاقی و صوبائی تعلقات کی نوعیت پر بھی اثر ڈالے گا۔‘‘
“سیاسی انتشار ختم ہونا چاہیے”
پشاور، مردان، سوات اور دیر کے عوامی حلقوں میں اس آئینی بحران پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔
کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے فیصلے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے تھی،
جبکہ دوسروں کے مطابق گورنر ’’سیاسی دباؤ‘‘ میں آکر تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔
ایک شہری محمد سلیم نے کہا، ’’ہمیں سیاست سے کوئی غرض نہیں، بس حکومت جلد قائم ہو تاکہ ترقیاتی کام شروع ہوں۔‘‘
خیبرپختونخوا کی سیاست اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔
ایک طرف تحریکِ انصاف اپنے نومنتخب وزیراعلیٰ سے فوری حلف لینے کا مطالبہ کر رہی ہے، دوسری طرف گورنر کا کہنا ہے کہ پہلے موجودہ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ آئینی طور پر منظور ہونا لازمی ہے۔
اب یہ معاملہ عدلیہ کے سامنے ہے، اور(peshawar high court) پشاور ہائیکورٹ کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے متعلق فیصلہ نہ صرف صوبے بلکہ ملکی آئینی تاریخ کے لیے بھی ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔
Finally ! Peshawar High Court has held its head high ! Oath tomorrow inshallah pic.twitter.com/qeX0Q3iFPr
— ShandanaGulzarKhan (@ShandanaGulzar) October 14, 2025
Comments 1