پشاور کوہاٹ روڈ دھماکا ، پشاور میں پولیس موبائل کے قریب دھماکا، 4 اہلکار زخمی
پشاور : — خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دہشت گردی کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ کوہاٹ روڈ پر قمر دین گڑھی کے مقام پر پولیس موبائل کے قریب دھماکے کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ دھماکا اس وقت ہوا جب پولیس موبائل معمول کے گشت پر تھی۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
زرائعے کے مطابق کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پشاور ڈاکٹر میاں سعید نے بتایا کہ پولیس موبائل معمول کے گشت پر تھی جب اچانک سڑک کنارے نصب بارودی مواد دھماکے سے پھٹ گیا۔
پشاور کوہاٹ روڈ دھماکا میں گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ زخمی اہلکاروں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے تاہم اسپتال انتظامیہ نے ان میں سے دو اہلکاروں کی حالت کو تشویشناک قرار دیا ہے۔
جائے وقوعہ کی صورتحال
دھماکے کے بعد پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ (BDU) کی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کیے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق پشاور کوہاٹ روڈ دھماکا ریموٹ کنٹرول یا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکے میں پانچ سے چھ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی جس سے اردگرد کی دکانوں اور گھروں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکے کے بعد لوگ خوف کے عالم میں گھروں اور دکانوں سے باہر نکل آئے جبکہ ٹریفک کئی گھنٹوں تک معطل رہی۔
پولیس اور سیکیورٹی اداروں کا ردِعمل
سی سی پی او پشاور ڈاکٹر میاں سعید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولیس دہشت گردی کے ایسے واقعات سے خوفزدہ نہیں ہوگی۔
"ہمارے جوانوں نے ہمیشہ اپنی جان پر کھیل کر شہریوں کی حفاظت کی ہے۔ یہ حملہ پولیس کے حوصلے کو پست نہیں کرسکتا۔”
انہوں نے کہا کہ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے اور جلد ہی ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
حکومتی موقف
خیبرپختونخوا کے نگران وزیرِ اطلاعات نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس فورس دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمی اہلکاروں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔
بلوچستان آپریشن میں دہشت گردوں کی ہلاکت، خواتین کے بھیس میں 4 گرفتار
دہشت گردی کی لہر اور پشاور
پشاور طویل عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ رہا ہے۔ 2023 میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شدت پسند گروہ اب بھی شہر کو ہدف بناتے ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان ان حملوں کی زد میں ہیں۔
شہریوں میں خوف و ہراس
پشاور کوہاٹ روڈ دھماکا (peshawar blast)کے بعد علاقے کے رہائشیوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ مقامی دکانداروں نے کہا کہ دھماکے کی آواز بہت زور دار تھی، جس کے بعد لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔
ایک عینی شاہد نے بتایا:
"ہم نے دھماکے کے بعد دھواں اٹھتے دیکھا اور پولیس کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔ زخمی اہلکار چیخ رہے تھے، لوگ مدد کے لیے دوڑ پڑے۔”
صحافتی تنظیموں کا ردِعمل
صحافی برادری نے بھی اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا۔ پشاور پریس کلب کے صدر نے کہا کہ بار بار پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا اس بات کی علامت ہے کہ دہشت گرد قوتیں ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
تجزیہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ پشاور کوہاٹ روڈ دھماکا اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ابھی مکمل طور پر نہیں توڑی جا سکی۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب سیکیورٹی ادارے پہلے ہی افغان سرحدی علاقوں میں کارروائیاں تیز کرچکے ہیں۔
پشاور میں کوہاٹ روڈ پر پولیس موبائل کے قریب ہونے والے دھماکے نے ایک بار پھر سوال کھڑا کردیا ہے کہ آخر دہشت گرد شہر کے وسط میں بارودی مواد کیسے نصب کرنے میں کامیاب ہوگئے؟
اگرچہ پولیس اور حکومت نے زخمی اہلکاروں کے علاج اور ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن شہریوں میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے سانحات کو روکا جا سکے۔
#BRAKING : Peshawar 🇵🇰 Blast on police mobile team. A police mobile team was hit by a b💣mb attack in Bala Mandi area of Peshawar.
The incident took place around seven pm in the area of 102 Brigade and the limits of Police Station Bala Mandi.
Via : @Drishti_K47 pic.twitter.com/aLcQr0vWTq
— Global__Perspective (@Global__persp1) October 2, 2025