پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان – وفاقی حکومت نے ڈیزل اور مٹی کا تیل سستا کیا
وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا: عوام کو جزوی ریلیف
وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق پٹرول کی قیمت کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے جبکہ دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ نئی قیمتیں آئندہ 15 دنوں کے لیے نافذ العمل ہوں گی، جس کا اطلاق یکم ستمبر 2025 سے ہوگا۔
پیٹرول کی قیمت کو 264 روپے 61 پیسے فی لیٹر پر برقرار رکھا گیا ہے، جو کہ عوامی سطح پر ایک متوقع فیصلہ تھا، کیونکہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کوئی نمایاں کمی یا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ تاہم، دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، جسے حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
نئی قیمتیں درج ذیل ہیں:
پٹرول: 264.61 روپے (کوئی تبدیلی نہیں)
ہائی اسپیڈ ڈیزل: 3 روپے کمی کے بعد نئی قیمت 269.99 روپے فی لیٹر
لائٹ ڈیزل: 2.40 روپے کمی کے بعد نئی قیمت 159.76 روپے فی لیٹر
مٹی کا تیل: 1.46 روپے کمی کے بعد نئی قیمت 176.81 روپے فی لیٹر
وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کا فیصلہ اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کی سفارشات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اوگرا نے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں، درآمدی لاگت، روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ اور مقامی ٹیکس ڈھانچے کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی قیمتیں تجویز کی تھیں۔
پس منظر:
گزشتہ چند مہینوں سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل سے اتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ کبھی عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ، تو کبھی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملکی سطح پر قیمتوں میں بھی رد و بدل آتا رہا ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں عالمی منڈی نسبتاً مستحکم رہی ہے، جس کا اثر ملکی سطح پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت کو برقرار رکھنا ایک متوازن فیصلہ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کو اپنی آمدنی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی، تو دوسری جانب عوام کو جزوی ریلیف بھی میسر آئے گا۔ خاص طور پر ڈیزل کی قیمت میں کمی کا براہ راست فائدہ ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبے کو ہوگا، جو ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
عوامی ردعمل:
پیٹرول کی قیمت کو برقرار رکھنے اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو عوامی حلقوں میں ملا جلا ردعمل ملا ہے۔ جہاں کچھ شہریوں نے اس فیصلے کو سراہا ہے، وہیں بعض حلقے اسے ناکافی قرار دے رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی حالیہ لہر میں حکومت کو چاہیے کہ پیٹرول کی قیمت میں بھی واضح کمی کرے تاکہ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی ممکن ہو۔
ایک شہری، احمد علی، کا کہنا تھا کہ:
"پٹرول کی قیمت برقرار رکھنا ایک اچھی بات ہے، کم از کم مزید بوجھ تو نہیں ڈالا گیا، لیکن ہم امید کر رہے تھے کہ قیمت میں کچھ کمی ضرور ہوگی تاکہ ٹرانسپورٹ کے کرایے بھی نیچے آئیں۔”
دوسری جانب ایک ٹرانسپورٹر، بشیر خان، نے کہا:
"ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں کمی خوش آئند ہے، خاص طور پر ہمارے جیسے لوگوں کے لیے جو روزانہ سیکڑوں کلومیٹر سفر کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا۔”
ماہرین کی رائے:
معاشی ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ کمی محدود ہے، تاہم یہ ملکی معاشی حالات کے تناظر میں ایک محتاط اور حقیقت پسندانہ قدم ہے۔ بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتیں ایک غیر یقینی صورتحال سے گزر رہی ہیں، اور حکومت شاید کسی بڑے رسک سے گریز کرتے ہوئے قیمتوں کو اعتدال پر رکھنا چاہتی ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرحان احمد کے مطابق:
"حکومت کا یہ اقدام درست سمت میں ایک قدم ہے، خاص طور پر جب ہم IMF پروگرام کے تحت مالیاتی نظم و ضبط پر عمل کر رہے ہیں۔ تاہم، اگر عالمی منڈی میں استحکام برقرار رہا، تو آئندہ مہینوں میں مزید کمی کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔”
سیاسی نقطۂ نظر:
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حسب روایت حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ حکومت صرف کاغذی ریلیف دے رہی ہے، جبکہ حقیقی مہنگائی کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک بجلی، گیس اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہیں آتی، عوام کی مشکلات کم نہیں ہو سکتیں۔
دوسری جانب حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں توازن رکھنا ناگزیر ہے۔ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ:
"ہماری اولین ترجیح ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے، لیکن ہمیں ملکی معاشی استحکام کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ اس لیے ہم ایک متوازن حکمت عملی کے تحت فیصلے کر رہے ہیں۔”
عالمی تناظر:
عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں اس وقت 85 تا 90 ڈالر فی بیرل کے درمیان مستحکم ہیں۔ اگر یہ قیمتیں مستقبل میں کم ہوتی ہیں تو پاکستان جیسے درآمدی انحصار رکھنے والے ممالک کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر جغرافیائی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو حکومت کے لیے قیمتیں برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
حکومت کا موجودہ فیصلہ ایک معتدل پالیسی کا مظہر ہے، جس میں ایک طرف قیمتوں کو بڑھنے سے روکا گیا ہے اور دوسری جانب عوام کو تھوڑا سا ریلیف بھی دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ فیصلہ معقول سمجھا جا سکتا ہے، تاہم عوام کی توقعات مستقبل میں مزید کمی کی جانب مرکوز ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ پندرہ دنوں میں عالمی منڈی اور ملکی معیشت میں کیا تبدیلی آتی ہے اور حکومت آئندہ پندرہ روزہ جائزے میں کس طرح کے فیصلے کرتی ہے۔
