وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب کا دورہ مکمل، برطانیہ اور امریکا روانگی
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنی حکومت کے ایک اور سفارتی سنگ میل کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے دو روزہ سعودی عرب کا دورہ مکمل کر لیا ہے اور اب وہ برطانیہ کے سرکاری دورے کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کے ہمراہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی موجود ہیں۔
یہ بین الاقوامی سفارتی دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کو اندرونی طور پر سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، جبکہ عالمی سطح پر بدلتی ہوئی سیاسی فضا میں پاکستان کو اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
وزیراعظم کا یہ دورہ تین اہم ستونوں پر مبنی ہے:
سعودی عرب سے تعلقات کی مضبوطی
برطانیہ سے تجارتی و سیاسی روابط
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا مؤقف پیش کرنا
سعودی عرب کا دو روزہ دورہ: اعتماد، تعاون اور بھائی چارے کا پیغام
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنا دو روزہ سعودی عرب کا دورہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا، جہاں انہوں نے اعلیٰ سعودی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر تمام تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، لیکن ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی ملاقاتیں ولی عہد محمد بن سلمان، وزیر خزانہ محمد الجدعان اور دیگر حکام سے ہوئیں۔
اہم نکات:
دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون، توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور دفاعی تعاون پر بات چیت کی گئی۔
سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کے اشارے بھی ملے، خاص طور پر گوادر، رینیوبل انرجی، اور معدنیات کے شعبے میں۔
وزیراعظم نے عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری دی، جسے پاکستانی عوام میں عقیدت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
الوداعی لمحات:
وزیراعظم کی روانگی کے موقع پر انہیں ریاض کے ڈپٹی گورنر شہزادہ محمد بن عبد الرحمان نے ائیرپورٹ پر الوداع کہا، جو اس بات کی علامت ہے کہ سعودی حکومت نے اس دورے کو نہایت اہمیت دی۔ یہ علامتی اشارے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور مذہبی رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
برطانیہ کا دورہ: سیاسی، تجارتی اور تعلیمی ایجنڈا
سعودی عرب سے روانگی کے بعد وزیراعظم اب برطانیہ کے دو روزہ دورے پر ہیں، جہاں وہ مختلف حکومتی عہدیداران، کاروباری شخصیات اور پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
ممکنہ ملاقاتیں:
برطانوی وزیراعظم ریشی سوناک کے ساتھ دوطرفہ ملاقات متوقع ہے۔
برطانوی سرمایہ کاروں کے ساتھ بزنس کانفرنس میں شرکت اور پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت۔
پاکستانی طلباء، تعلیمی اداروں اور NHS میں کام کرنے والے پاکستانی پروفیشنلز سے ملاقاتیں بھی شیڈول کا حصہ ہوں گی۔
اہم نکات:
وزیراعظم برطانیہ میں ترسیلات زر بھیجنے والی پاکستانی کمیونٹی کا شکریہ ادا کریں گے۔
تعلیم، صحت، تجارت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی۔
عمران خان کی حکومت کے دوران کچھ کشیدہ لمحات کے بعد یہ دورہ تعلقات کی بحالی کا موقع بھی بن سکتا ہے۔
اگلا مرحلہ: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
برطانیہ کے دورے کے بعد وزیراعظم امریکہ روانہ ہوں گے، جہاں وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) کے 79 ویں سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اجلاس کی اہمیت:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی عالمی سطح پر سب سے بڑی سفارتی اسٹیج ہے، جہاں دنیا کے تمام ممالک اپنے قومی و عالمی مؤقف کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ دورہ نہ صرف بین الاقوامی دنیا کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کا موقع ہے بلکہ بھارت، کشمیر، فلسطین، افغانستان اور اسلاموفوبیا جیسے اہم معاملات پر آواز بلند کرنے کا پلیٹ فارم بھی۔
متوقع نکات:
کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
مقبوضہ فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت
اسلاموفوبیا کے خلاف بین الاقوامی قانون سازی کی اپیل
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، خاص طور پر پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا تذکرہ
عالمی برادری سے قرضوں میں نرمی اور اقتصادی مدد کی درخواست
وزیراعظم کا خطاب عالمی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں گہری نظر سے دیکھا جائے گا، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے موجودہ رجحانات کی عکاسی کرے گا۔
سفارتی کامیابی یا رسمی دورے؟ ماہرین کی رائے
سیاسی و سفارتی تجزیہ کار اس دورے کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نئی سمت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ کے ساتھ متوازن تعلقات کی طرف گامزن ہے۔
ماہرین کا تجزیہ:
سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی شراکت داری، سی پیک کے تناظر میں نئی جہت اختیار کر رہی ہے۔
برطانیہ سے تعلیمی و تجارتی روابط کو وسعت دینا اہم سنگ میل ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے لانا بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
تاہم، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے دورے اگر ٹھوس نتائج پیدا نہ کریں تو صرف علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصل چیلنج ان معاہدات اور ملاقاتوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
عوامی توقعات اور سیاسی پس منظر
پاکستان کے عوام، خصوصاً اوورسیز پاکستانی اس دورے سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل، جیسے NICOP، ریمیٹنس ٹیکس، اور قونصلر خدمات بہتر بنائی جائیں۔
دوسری جانب، پاکستان کے اندر سیاسی کشیدگی، معاشی بحران، اور مہنگائی کی صورتحال بھی وزیراعظم کے لیے ایک چیلنج ہے۔ عوام یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان بین الاقوامی دوروں سے ملکی معیشت میں کوئی واضح بہتری آئے گی؟
سعودی ولی عہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی دعوت پر وزیراعظم محمد شہباز شریف دورہ سعودی عرب مکمل کر کے ریاض سے لندن روانہ
ریاض کے نائب گورنر عزت مآب محمد بن عبد الرحمن بن عبد العزیز نے ایئرپورٹ پر وزیراعظم اور وفد کو الوداع کیا۔
🇵🇰🇸🇦… pic.twitter.com/YI45dsypG2
— Government of Pakistan (@GovtofPakistan) September 18, 2025
ایک متحرک سفارتی پالیسی کا آغاز؟
وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ سفارتی دورہ صرف ایک رسمی سفارتی مشق نہیں بلکہ ایک متحرک خارجہ پالیسی کی جھلک ہے۔ سعودی عرب سے معاشی امداد و تعاون، برطانیہ سے تجارتی و تعلیمی تعلقات، اور اقوام متحدہ میں عالمی مؤقف کی نمائندگی — یہ تمام اقدامات پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک فعال، متوازن اور باوقار ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہیں۔
تاہم، ان دوروں کی اصل کامیابی ان کے عملی نتائج پر منحصر ہے۔ اگر ان دوروں سے حاصل ہونے والے معاہدے، سرمایہ کاری، اور عالمی حمایت کو زمینی سطح پر نافذ کیا گیا تو یقیناً پاکستان کی معیشت، سفارت کاری اور عالمی ساکھ میں بہتری آئے گی۔
Comments 1