ماہرین صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ڈبے کا دودھ یا فارمولا ملک دراصل صرف اُن بچوں کی ضرورت ہے جنہیں ماں کا دودھ کسی بھی وجہ سے دستیاب نہیں ہوتا، جیسے پیدائش کے فوراً بعد ماں کا انتقال یا شدید بیماری
پاکستان میں ہر سال اربوں روپے کے فارمولا دودھ اور تیار شدہ بچوں کی خوراک استعمال کی جا رہی ہے، جو ماہرین کے مطابق نہ صرف غیر ضروری بلکہ بچوں کی صحت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈبے کے دودھ کی حقیقی ضرورت کتنی؟
پاکستان میں سالانہ تقریباً 60 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے صرف دو ہزار سے بھی کم ایسے بچے ہوتے ہیں جنہیں واقعی متبادل دودھ کی طبی طور پر ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں زچگی کے دوران انتقال کر جاتی ہیں، شدید بیماری کا شکار ہوتی ہیں یا نایاب جینیاتی و میٹابولک بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فارمولا دودھ کو عام بچوں کے لیے متبادل خوراک کے طور پر فروغ دینا نہ صرف سائنسی بنیادوں پر غلط ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی ناقابل قبول ہے۔ ماں کا دودھ وہ قدرتی نعمت ہے جو بچے کی نشوونما، مدافعتی نظام اور ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مارکیٹنگ یا صحت؟
پاکستان میں فارمولا دودھ کی سالانہ فروخت 110 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ سات بڑی بین الاقوامی کمپنیاں اس مارکیٹ پر قابض ہیں، جو نہ صرف پرکشش تشہیری مہموں، اشتہارات، اور ہیلتھ ورکرز کو دیے جانے والے مراعات کے ذریعے ماؤں کو گمراہ کر رہی ہیں بلکہ قانون سازی کے خلاف بھی سرگرم ہیں۔
پروفیسر ذوالفقار بھٹہ، پروفیسر جمال رضا اور پروفیسر فائزہ جہاں جیسے عالمی سطح پر معروف ماہرین نے اس بات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے کہ یہ کمپنیاں پاکستان میں ماں کے دودھ کے کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
قانون سازی اور اس کی مخالفت
سندھ حکومت نے 2023 میں "ماں کے دودھ کے فروغ اور بچوں کی غذائی تحفظ کا قانون” منظور کیا، جو جنوبی ایشیا میں بچوں کی غذائیت سے متعلق سب سے جامع قانون سمجھا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت:
فارمولا دودھ کی اسپتالوں میں تشہیر پر مکمل پابندی ہے۔
ہیلتھ ورکرز کو تحائف دینے کی ممانعت ہے۔
بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے 36 ماہ سے کم عمر بچوں کو ڈبے کا دودھ دینے پر پابندی ہے۔
تاہم، فارمولا کمپنیوں نے اس قانون کی شدید مخالفت کی ہے۔ انہوں نے اسے سائنس کے خلاف قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ڈبے کا دودھ ایک دوا کے بجائے فوڈ پروڈکٹ قرار دیا جائے تاکہ اس کی نگرانی سخت ریگولیٹری اداروں کی بجائے صوبائی فوڈ اتھارٹیز کے سپرد ہو جائے، جہاں نگرانی نسبتاً کمزور ہوتی ہے۔

قومی سطح پر قانون سازی میں رکاوٹ
وفاقی سطح پر بھی ایک بل سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے جس میں عالمی ادارہ صحت کے ضابطوں کے مطابق فارمولا دودھ کی فروخت اور تشہیر کو ریگولیٹ کرنے کی شقیں موجود ہیں۔ تاہم، قومی اسمبلی میں یہ بل فارمولہ کمپنیوں کے دباؤ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ ماہرین اس تاخیر کو عوامی صحت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں۔
بچوں کی صحت پر اثرات
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تقریباً 50 فیصد وجہ ناقص یا ناکافی دودھ پلانا ہے۔ خاص طور پر ڈبے کا دودھ اسہال، نمونیا اور دیگر جان لیوا بیماریوں کی بڑی وجہ بنتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ نوزائیدہ بچے ان بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جن کی بڑی وجہ ڈبے کا دودھ ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ فارمولا دودھ بچوں کے لیے مکمل غذا نہیں ہے۔ اس میں وہ تمام مدافعتی اجزاء، انزائمز، اور غذائی اجزات موجود نہیں ہوتے جو ماں کے دودھ میں فطری طور پر پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ:
فارمولا دودھ کی تیاری میں معمولی سی غلطی بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
اس میں صفائی کا خاص خیال نہ رکھا جائے تو بچے سنگین انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔
فارمولا دودھ ہر بچے کی انفرادی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتا، جب کہ ماں کا دودھ وقت کے ساتھ بچے کی ضروریات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

ماں کا دودھ: قدرت کا تحفہ
ماں کا دودھ نہ صرف بچے کی جسمانی و ذہنی نشوونما میں مددگار ہوتا ہے بلکہ اس سے بچے کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے، وہ بیماریوں سے لڑنے کے قابل بنتا ہے، اور مستقبل میں دماغی صحت بھی بہتر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ، ماں اور بچے کے درمیان محبت اور تعلق کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے جو اس کی نفسیاتی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
معیشت پر اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ نہ پلانے کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 2.8 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کی بیماریوں کا بوجھ، علاج کے اخراجات، اسکول کی کارکردگی میں کمی اور والدین کی کمائی پر منفی اثرات شامل ہیں۔
حل کیا ہے؟
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ فارمولا دودھ پر مکمل پابندی لگانے کے بجائے اسے سخت ضابطوں کے تحت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ان بچوں کے لیے جو ماں کے دودھ سے محروم ہوں، فارمولا دودھ کو ڈاکٹر کے نسخے پر دستیاب ہونا چاہیے۔
ساتھ ہی:
زچگی کی چھٹیوں کو بڑھایا جائے۔
کام کرنے والی خواتین کے لیے دودھ پلانے کی سہولتیں دی جائیں۔
عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے ماں کے دودھ کی اہمیت اجاگر کی جائے۔
اسپتالوں میں فارمولا دودھ کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں فارمولا دودھ کا بلا ضرورت استعمال نہ صرف معصوم جانوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ ملک کی معیشت اور صحت عامہ کے لیے بھی ایک بڑا بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ ماں کا دودھ ایک قدرتی، محفوظ اور مکمل غذا ہے جس کا کوئی نعم البدل ممکن نہیں۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ حکومت، طبی ادارے، میڈیا اور والدین مل کر ماں کے دودھ کے فروغ کے لیے متحد ہوں اور ایسے ہر اقدام کو روکا جائے جو ماؤں کو اس فطری نعمت سے دور کر رہا ہے۔