پاکستان تحریک انصاف کا بڑا فیصلہ، اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگانے کا منصوبہ
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے، جہاں پاکستان تحریکِ انصاف (PTI) نے سیاسی تاریخ میں ایک منفرد قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل کے باہر "عوامی اسمبلی” منعقد کرے گی، جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین شرکت کریں گے۔ یہ فیصلہ دراصل سیاسی دباؤ بڑھانے، احتجاج ریکارڈ کرانے اور پارٹی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف آواز بلند کرنے کی ایک منظم حکمت عملی کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
پسِ منظر: سیاسی کشیدگی اور عمران خان کی گرفتاری
عمران خان، جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِاعظم ہیں، اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ اُن کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں سیاسی تناؤ اور بےچینی کی فضا قائم ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان مسلسل یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف کارروائیاں سیاسی انتقام پر مبنی ہیں، اور اُن کا عدالتی عمل شفاف نہیں ہے۔
ایسے حالات میں پارٹی کی جانب سے "عوامی اسمبلی” کا اعلان صرف ایک علامتی احتجاج نہیں بلکہ ایک طاقتور سیاسی پیغام بھی ہے: پارلیمنٹ اگر خاموش ہے، تو سڑکوں پر نئی اسمبلی لگائی جائے گی۔
عوامی اسمبلی: کیا ہے اس کا مقصد؟
پی ٹی آئی رہنما ملک عامر ڈوگر نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین اڈیالہ جیل کے باہر اکٹھے ہوں گے اور وہاں عوامی اسمبلی کا انعقاد کریں گے۔ اُن کے مطابق اس اقدام کا مقصد:
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا
حکومتی پالیسیوں اور عدالتی فیصلوں پر سوالات اٹھانا
عوام کو دکھانا کہ پارلیمان میں اپوزیشن کی آواز دبائی جا رہی ہے
اور یہ باور کرانا کہ عوامی نمائندے کسی دباؤ میں آ کر خاموش نہیں ہوں گے
یہ اعلان دراصل PTI کی اُس طویل حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے جس کا مقصد "پارلیمانی مزاحمت” کے ساتھ ساتھ "عوامی دباؤ” بھی برقرار رکھنا ہے۔
احتجاج کی نئی شکل یا محض علامتی سیاست؟
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ایک نیا سیاسی تجربہ ہو سکتا ہے، جہاں منتخب نمائندے عوام کے درمیان بیٹھ کر اپنی پارلیمانی ذمہ داریاں نبھانے کا دعویٰ کریں گے۔ تاہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے: کیا یہ اقدام صرف ایک "سیاسی شو” ہے یا اس کے کوئی دیرپا نتائج نکل سکتے ہیں؟
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر PTI واقعی بڑی تعداد میں عوام اور میڈیا کو اڈیالہ جیل کے باہر جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔
عوامی ردِعمل: حمایت یا انتشار؟
اب تک سوشل میڈیا پر اس اعلان کو PTI کے حمایتیوں کی طرف سے کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ہیش ٹیگز جیسے #عوامی_اسمبلی اور #ReleaseImranKhan ٹرینڈ کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب حکومت اور مخالف سیاسی جماعتیں اس اقدام کو غیر سنجیدہ اور غیر آئینی قرار دے رہی ہیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل ریاستی اداروں کے احترام کے خلاف ہے اور اس سے قانون کی بالادستی پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ تاہم PTI کا مؤقف ہے کہ جب پارلیمان میں ان کی آواز دبائی جا رہی ہو، تو عوامی سطح پر احتجاج ہی واحد راستہ بچتا ہے۔
پارٹی کارکنان کی شرکت: بڑی تعداد میں جمع ہونے کی تیاری
ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت صرف اراکینِ پارلیمنٹ تک محدود نہیں رہنا چاہتی۔ منصوبہ یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں PTI کارکنان کو بھی اڈیالہ جیل کے باہر جمع کیا جائے گا تاکہ احتجاج کو ایک بڑی عوامی تحریک کا رنگ دیا جا سکے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا مہم کے ذریعے کارکنان کو متحرک کیا جا رہا ہے۔
تاریخ کا اعلان کب؟
ملک عامر ڈوگر نے عوامی اسمبلی کی تاریخ کے بارے میں کوئی حتمی اعلان نہیں کیا، لیکن پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ قیادت مشاورت کے بعد حتمی دن اور وقت کا تعین کرے گی۔ امکان ہے کہ یہ اقدام کسی اہم سیاسی یا عدالتی پیش رفت کے ساتھ مربوط کیا جائے تاکہ احتجاج کا اثر زیادہ ہو۔
آئینی اور قانونی پہلو
قانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، لیکن "عوامی اسمبلی” جیسے اجتماعات میں قانون شکنی یا عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہایت نازک معاملہ ہو سکتا ہے۔ اڈیالہ جیل کے باہر سیکیورٹی انتہائی سخت ہوتی ہے، اور کسی بھی قسم کی بدنظمی صورتحال کو مزید کشیدہ کر سکتی ہے۔
سیاسی پیغام: "پارلیمنٹ کہیں بھی ہو سکتی ہے”
تحریک انصاف کا یہ اقدام صرف ایک احتجاجی مظاہرہ نہیں، بلکہ یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ اگر پارلیمان کو عوام کی آواز سننے سے روکا جائے گا، تو عوامی نمائندے پارلیمان کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔ یہ پیغام حکومتی پالیسی سازوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ایک چیلنج ہو سکتا ہے، کہ سیاسی بحران کو محض جبر یا گرفتاریوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
مستقبل کا لائحہ عمل
پی ٹی آئی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عوامی اسمبلی کے بعد بھی احتجاجی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ مختلف شہروں میں اسی طرز کے احتجاج اور عوامی اجتماعات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی صرف ایک دن کا احتجاج نہیں، بلکہ طویل مزاحمتی تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے۔
سیاسی فضا مزید گرم
تحریک انصاف کی جانب سے اڈیالہ جیل کے باہر "عوامی اسمبلی” کا فیصلہ بلاشبہ ایک غیر روایتی اور طاقتور سیاسی قدم ہے۔ اس سے نہ صرف حکومت پر دباؤ بڑھے گا، بلکہ عوامی سطح پر بھی سیاسی شعور میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ احتجاج پرامن اور مؤثر ثابت ہوتا ہے، یا یہ کشیدگی اور ٹکراؤ کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
سوال یہ ہے: کیا "عوامی اسمبلی” پاکستان کی جمہوریت کو ایک نئی سمت دے گی، یا یہ صرف ایک وقتی سیاسی تماشا بن کر رہ جائے گی؟


Comments 1