پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں بحران کا شکار، اہم عہدے واپس لے لیے گئے
پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اندرونی بحران کا شکار
پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سیاسی مخالفین کی جانب سے دباؤ کا شکار تو ہے ہی، مگر اصل چیلنج پارٹی کے اندرونی نظم و ضبط کی شدید کمی بن چکا ہے۔ حالیہ واقعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پارٹی صرف بیرونی طاقتوں سے نہیں، بلکہ خود اپنے فیصلوں، قیادت کی غیر موجودگی اور ادارہ جاتی کمزوریوں سے بھی نبرد آزما ہے۔
قیادت کا خلا اور غیر واضح حکمت عملی
عمران خان کی قید اور پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں کی سیاسی منظرنامے سے غیر موجودگی نے پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مؤثر قیادت کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ عمر ایوب، زرتاج گل، اور دیگر رہنماؤں کی تبدیلی نہ صرف بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے بلکہ اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پارٹی کے پاس متبادل قیادت موجود ہے یا نہیں؟
پارٹی کی پالیسی میں بار بار تبدیلی، اراکین کی غیر موجودگی، اور یکساں مؤقف کا فقدان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فیصلہ سازی کا عمل مفلوج ہو چکا ہے۔
اراکین کی غیر فعالیت اور کمیٹیوں میں غیر حاضری
ذرائع کے مطابق متعدد پی ٹی آئی ارکان پارلیمانی کمیٹیوں میں غیر فعال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو نہ صرف ان سے عہدے واپس لینے پڑے بلکہ ان کی کمیٹی رکنیت بھی ختم کرنا پڑی۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں صرف سیاسی سازشوں کا شکار نہیں بلکہ خود اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔
پارٹی پالیسی اور اپوزیشن کے کردار پر سوالات
ایک مؤثر اپوزیشن وہ ہوتی ہے جو حکومت کے ہر غلط قدم کا مقابلہ کرے، ایوان میں آواز بلند کرے اور عوامی مسائل پر بات کرے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ان تمام محاذوں پر کمزور نظر آتی ہے۔ اکثر اوقات ایوان میں پارٹی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اور جو تقاریر کی جاتی ہیں وہ غیر مربوط اور وقتی ردعمل پر مبنی ہوتی ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت اور بھی تشویشناک ہو جاتی ہے جب پارٹی کی سینئر قیادت خود بھی میڈیا میں بیانیے پر متفق نظر نہیں آتی۔ یہ انتشار خود پارٹی کے ووٹرز میں مایوسی پیدا کر رہا ہے۔
کیا عدالتی اور قانونی فیصلے واحد وجہ ہیں؟
عام تاثر یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں موجودہ صورتحال کا سامنا صرف عدالتی فیصلوں یا اسپیکر کے اقدامات کی وجہ سے ہے، مگر اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اصل وجہ پارٹی کا اندرونی بحران، قیادت کی کمزوری اور ادارہ جاتی ناکامی بھی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت ان کا نظم و ضبط، اتحاد اور مؤثر پالیسی سازی ہوتی ہے۔ اگر یہی تین پہلو کمزور ہوں تو بیرونی حملے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں، جیسا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔

سیاسی بحالی کا امکان اور آئندہ کا لائحہ عمل
اگر پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن بحال کرنا چاہتی ہے تو صرف عدالتی ریلیف یا حکومت پر دباؤ ڈالنا کافی نہیں ہوگا۔ پارٹی کو اندرونی طور پر خود کو منظم کرنا ہوگا۔ اراکین کو متحرک کرنا، قیادت کا واضح ڈھانچہ بنانا، اور عوامی مسائل پر واضح مؤقف اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں اگر پارٹی نے اپنے اندرونی مسائل کو نہ سلجھایا تو آنے والے عام انتخابات میں بھی یہی کمزوریاں اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی۔
محض سیاسی سازش یا خود ساختہ بحران؟
قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن محض ایک سیاسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری اندرونی کمزوریوں، ناقص تنظیم سازی اور قیادت کے خلا کا نتیجہ بھی ہے۔ اگر پارٹی خود احتسابی کا مظاہرہ کرے، تنظیم نو کرے اور مؤثر حکمت عملی اپنائے تو وہ نہ صرف ایوان میں بلکہ عوامی سطح پر بھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کر سکتی ہے۔
Comments 1