انسداد دہشت گردی عدالت: پی ٹی آئی رہنما اشتہاری قرار دیے جانے کے قریب
انسداد دہشت گردی عدالت کا بڑا فیصلہ: پی ٹی آئی کی تین رہنما اشتہاری قرار دیے جانے کے قریب
لاہور: انسداد دہشت گردی عدالت (ATC) لاہور نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی تین مرکزی خواتین رہنماؤں عالیہ حمزہ، صنم جاوید اور عائشہ بھٹہ کو جناح ہاؤس حملہ کیس میں مسلسل عدم پیشی پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ عدالت نے تینوں خواتین کے اشتہارات جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ 2 اکتوبر تک اشتہارات شائع کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔
یہ فیصلہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج منظر علی گل نے سنایا، جو اس مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ مذکورہ خواتین ملزمہ ہونے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہو رہیں اور عدالتی کارروائی سے مسلسل غیر حاضر ہیں، جو قانون کے مطابق قابل گرفتاری اور اشتہاری قرار دیے جانے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
کیس کا پس منظر – جناح ہاؤس حملہ
9 مئی 2023 کو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ ان مظاہروں کے دوران مختلف سرکاری و عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں لاہور میں واقع کور کمانڈر ہاؤس (جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے) پر حملہ سب سے نمایاں اور سنگین واقعہ قرار دیا گیا۔
اس حملے کو پاکستان کی عسکری قیادت کے خلاف کھلی بغاوت اور دہشت گردی کے زمرے میں شمار کیا گیا، جس کے نتیجے میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ جناح ہاؤس حملہ کیس میں درجنوں سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، جن میں پی ٹی آئی کی کئی سرکردہ خواتین رہنما بھی شامل تھیں۔
ملزم خواتین کا عدالتی عمل سے گریز
عدالت میں پیش کی گئی پولیس رپورٹ کے مطابق، صنم جاوید، عالیہ حمزہ اور عائشہ بھٹہ کو جناح ہاؤس حملے سمیت دیگر مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ تاہم، سزا یافتہ ہونے کے باوجود تینوں خواتین جناح ہاؤس حملے کے ٹرائل کے لیے عدالت میں حاضر نہیں ہو رہیں۔ اس عدم تعاون کو قانون شکنی تصور کرتے ہوئے، پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
عدالت نے پولیس کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے قانونی تقاضوں کے مطابق پہلا قدم اٹھایا ہے، جو ملزم کو اشتہاری قرار دینے کے لیے اشتہار جاری کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر خواتین نے مقررہ وقت میں عدالت سے رجوع نہ کیا تو انہیں قانوناً مفرور اور اشتہاری قرار دیا جائے گا۔
اشتہار جاری کرنے کا قانونی عمل کیا ہے؟
پاکستان کے فوجداری قوانین کے تحت، جب کوئی ملزم عدالت کے بار بار بلانے کے باوجود پیش نہ ہو، اور اس کی گرفتاری ممکن نہ ہو، تو عدالت "اشہتاری کارروائی” کا آغاز کرتی ہے۔ اس کارروائی کے تحت:
عدالت حکم دیتی ہے کہ ملزم کے خلاف اشتہار شائع کیا جائے، جس میں اسے عدالت میں پیش ہونے کا آخری موقع دیا جاتا ہے۔
یہ اشتہار عام طور پر قومی اخبارات میں شائع ہوتا ہے۔
اگر اشتہار کے بعد بھی ملزم عدالت میں پیش نہ ہو، تو اسے "مفرور” یا "اشہتاری مجرم” قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد پولیس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ بغیر وارنٹ گرفتاری کرے، اور عدالت ملزم کی جائیداد ضبطی کا عمل بھی شروع کر سکتی ہے۔
یہ تمام عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست عدالتی رٹ کے نفاذ میں سنجیدہ ہے۔
سیاسی اور قانونی اثرات
یہ عدالتی فیصلہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت پہلے ہی مختلف مقدمات اور قانونی کارروائیوں کی زد میں ہے۔ ان تین خواتین رہنماؤں کا مفرور قرار دیا جانا نہ صرف پارٹی کے لیے قانونی مشکلات پیدا کرے گا بلکہ سیاسی میدان میں بھی حزبِ اختلاف کی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
- پارٹی پر اثرات:
پی ٹی آئی خواتین ونگ کی ان رہنماؤں کو پارٹی کی نظریاتی آواز سمجھا جاتا رہا ہے۔ اگر یہ رہنما عدالتی کارروائیوں کا سامنا کیے بغیر مفرور رہتی ہیں، تو یہ پارٹی کی ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
- قانونی پیچیدگیاں:
عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد، ان رہنماؤں کے لیے نہ صرف دیگر قانونی حقوق محدود ہو جاتے ہیں، بلکہ ان کے سفری، سیاسی اور مالی معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔
- حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے:
یہ فیصلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک امتحان بھی ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر کس حد تک عملدرآمد کرتے ہیں۔ اشتہار کی اشاعت، گرفتاری اور ممکنہ جائیداد ضبطی کے مراحل کی کامیابی ریاستی نظام پر اعتماد بحال کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
عالیہ حمزہ، صنم جاوید اور عائشہ بھٹہ – مختصر تعارف
عالیہ حمزہ:
پی ٹی آئی کی ترجمان اور سابق رکن قومی اسمبلی، جو اکثر میڈیا پر پارٹی مؤقف کا دفاع کرتی رہی ہیں۔
صنم جاوید:
سوشل میڈیا پر انتہائی فعال، اور حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں میں نمایاں نظر آنے والی سیاسی کارکن۔
عائشہ بھٹہ:
پی ٹی آئی کی خواتین ونگ کی سرگرم رکن، جو مختلف سیاسی جلسوں میں پارٹی کا پیغام عام کرنے میں مصروف رہی ہیں۔
یہ تینوں خواتین پی ٹی آئی کی متحرک اور نظریاتی نمائندگی کرتی ہیں، اور ان پر لگنے والے الزامات سنگین نوعیت کے ہیں۔
عوامی ردعمل اور میڈیا کا کردار
سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر اس خبر کو نمایاں کوریج دی جا رہی ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے رائے دی جا رہی ہے کہ عدالتی کارروائی سیاسی انتقام ہے یا قانون کی بالادستی کا مظاہرہ۔ تاہم، قانونی ماہرین اس عمل کو فوجداری قانون کے تحت ایک معمول کا عمل قرار دے رہے ہیں۔
میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو غیر جانبدار انداز میں رپورٹ کرے تاکہ عوام تک درست معلومات پہنچائی جا سکیں اور عدالتی معاملات پر غیر ضروری قیاس آرائی نہ ہو۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کا تین پی ٹی آئی خواتین رہنماؤں کے خلاف اشتہاری کارروائی کا آغاز کرنا ایک بڑا قانونی اور سیاسی قدم ہے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ عدالتیں قانون کی بالا دستی کے اصول پر کاربند ہیں اور چاہے ملزم کا تعلق کسی بھی جماعت یا طبقے سے ہو، وہ قانون سے بالاتر نہیں۔
یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، بشمول پی ٹی آئی، عدالتی عمل کا احترام کریں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی صفائی پیش کریں۔ اسی میں پاکستان کی جمہوریت، انصاف اور نظام کی بقا ہے۔











