عدالت کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کیس میں عمر ایوب، شبلی فراز، زرتاج گل اور حامد رضا کو 10،10 سال قید کی سزا — سیاسی منظرنامے میں ہلچل
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں عمر ایوب، شبلی فراز، زرتاج گل اور صاحبزادہ حامد رضا کو 9 مئی کیس میں 10،10 سال قید کی سزا سنا کر ملکی سیاسی منظرنامے میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ تھانہ سول لائن لاہور میں درج مقدمہ نمبر 409/23 کے تحت سنایا، جس میں مجموعی طور پر 108 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔

عدالتی فیصلہ: اہم نکات
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دستیاب شواہد، گواہان کے بیانات اور ویڈیو فوٹیجز کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ رہنما 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث پائے گئے۔ عدالت نے انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی، جب کہ پی ٹی آئی کے ایم پی اے جنید افضل ساہی کو تین سال قید کی سزا دی گئی ہے۔
بری ہونے والے رہنما
اسی کیس میں پی ٹی آئی کے دیگر رہنما فواد چوہدری، زین قریشی اور خیال کاسترو کو ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ ان رہنماؤں کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
پس منظر: 9 مئی کے واقعات
یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ ان واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملے، سرکاری عمارتوں کو آگ لگانے اور شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

یہ مقدمات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنگین نوعیت کے مقدمات میں شمار ہوتے ہیں، جن کے باعث پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت پر قانونی دباؤ بڑھا اور پارٹی کو متعدد محاذوں پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مقدمے کی تفصیلات
تھانہ سول لائن لاہور میں درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، تعزیرات پاکستان کی سنگین دفعات، املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس اہلکاروں پر حملہ، اور ریاستی سالمیت کو چیلنج کرنے جیسے الزامات شامل تھے۔
استغاثہ نے عدالت کے سامنے سی سی ٹی وی فوٹیج، کال ریکارڈ، سوشل میڈیا پوسٹس اور دیگر ثبوت پیش کیے، جن میں ان رہنماؤں کی موجودگی اور مبینہ اکسانے کا ذکر تھا۔ عدالت نے ان ثبوتوں کو قابل قبول قرار دیتے ہوئے سزائیں سنائیں۔
سیاسی و عوامی ردعمل
اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان نے اس فیصلے کو "سیاسی انتقام” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
"یہ فیصلہ قانون کی نہیں، طاقت کی حکمرانی کا عکاس ہے۔ ہماری قیادت بے گناہ ہے اور ہم اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں گے۔”
دوسری جانب حکومتی وزرا نے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ وزیر قانون نے کہا:
"یہ فیصلہ قانون کی بالادستی کی جیت ہے۔ کسی کو بھی ریاستی اداروں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
تجزیہ: سیاسی نتائج اور آئندہ کی صورت حال
اس فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی پولرائزیشن میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پر قانونی گرفت مزید مضبوط ہو گئی ہے اور آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کی جائے، جہاں قانونی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف
ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے مقدمے کی شفافیت پر نظر رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ:
"اگرچہ قانون شکنی کی سزا ہونی چاہیے، لیکن عدالتی عمل میں شفافیت اور غیر جانب داری ضروری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ فیصلہ آئین و قانون کے مطابق سنایا گیا ہے۔”
ایک نیا موڑ
9 مئی کے واقعات پر ہونے والی عدالتی کارروائیوں میں یہ پہلا بڑا فیصلہ ہے، جس نے نہ صرف پی ٹی آئی کے مستقبل کو متاثر کیا بلکہ ملک کے سیاسی، عدالتی اور عوامی حلقوں میں بھی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ فیصلے کس حد تک اپیل میں برقرار رہتے ہیں اور آیا پی ٹی آئی اپنی سیاسی بحالی کی راہ پر گامزن ہو پاتی ہے یا نہیں۔
