پب جی گیم کے نقصانات اور لاہور میں دل دہلا دینے والا واقعہ
لاہور کی سیشن کورٹ نے ایک ہولناک مقدمے کا فیصلہ سنایا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ عدالت نے کم عمر مجرم علی زین کو، جس نے اپنے ہی گھر کے چار افراد کو قتل کر دیا تھا، مجموعی طور پر 100 سال قید اور 40 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ واقعہ جنوری 2022 میں پیش آیا جب 14 سالہ علی زین نے اپنی والدہ، بہنوں اور بھائی کو قتل کر دیا۔ تفتیش کے مطابق یہ اندوہناک واقعہ ایک مشہور آن لائن گیم ’’پب جی‘‘ سے متاثر ہو کر پیش آیا۔
یہ کیس نہ صرف ایک خاندانی سانحہ ہے بلکہ اس نے ایک بار پھر پوری دنیا میں پب جی گیم کے نقصانات پر بحث چھیڑ دی ہے۔
پب جی گیم کے نقصانات اور لاہور کا واقعہ
پولیس کے مطابق مجرم علی زین ایک شدید حد تک پب جی کھیلنے کا عادی تھا۔ وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے اپنے کمرے میں گیم کھیلتا رہتا۔ واقعے والے دن وہ ایک گیم مشن میں ناکام ہوا، جس پر اس نے غصے میں آ کر اپنی والدہ کی پستول اٹھائی اور گھر کے چار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پب جی گیم کے نقصانات صرف وقت کے ضیاع یا تعلیمی کارکردگی کی کمی تک محدود نہیں بلکہ یہ ذہنی دباؤ، غصے پر قابو نہ پانے اور بعض اوقات جان لیوا جرائم تک پہنچا سکتا ہے۔
عدالت کا فیصلہ
ایڈیشنل سیشن جج ریاض احمد نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ مجرم کم عمر تھا، اس لیے اسے سزائے موت کی بجائے چار بار عمر قید کی سزا دی گئی۔ یہ سزا اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے، کیونکہ عدالت نے یہ واضح پیغام دیا کہ معاشرے میں ایسے سنگین جرائم کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
عدالتی فیصلے کے بعد والدین، ماہرینِ نفسیات اور تعلیمی اداروں میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ پب جی گیم کے نقصانات پر توجہ دی جائے اور بچوں کو اس قسم کی آن لائن گیمز سے دور رکھنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
پب جی گیم کے نقصانات – ایک عالمی مسئلہ
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں پب جی سے جڑا کوئی المناک واقعہ سامنے آیا ہو۔ اس سے قبل بھی لاہور اور دیگر شہروں میں کم از کم تین نوجوان اس گیم کے اثرات کی وجہ سے اپنی جان لے چکے ہیں۔ پولیس اور ماہرین نے کئی بار خبردار کیا ہے کہ پب جی گیم کے نقصانات صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں دیکھے جا رہے ہیں۔
بھارت میں پابندی: بھارت نے 2020 میں نوجوانوں پر اس گیم کے برے اثرات دیکھ کر پب جی پر پابندی لگا دی تھی۔
نیپال میں خدشات: نیپال میں بھی عدالت نے اسے ’’سماجی تباہی کا ذریعہ‘‘ قرار دیتے ہوئے عارضی پابندی لگائی تھی۔
دیگر ممالک میں بحث: کئی یورپی اور خلیجی ممالک میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ اس گیم کو کس طرح ریگولیٹ کیا جائے۔
یہ تمام مثالیں اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ پب جی گیم کے نقصانات ایک عالمی حقیقت ہیں۔
ماہرین کی رائے
ماہرینِ نفسیات کے مطابق پب جی اور دیگر آن لائن ویڈیو گیمز دماغ پر براہِ راست اثر ڈالتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل یہ گیم کھیلنے والے بچوں میں:
نیند کی کمی
غصے پر قابو نہ پانے کی عادت
توجہ کی کمی
تعلیمی کارکردگی میں گراوٹ
ذہنی دباؤ اور ڈپریشن
جیسی علامات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان تمام علامات کو دیکھتے ہوئے ماہرین والدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں اور انہیں حقیقی زندگی کی سرگرمیوں میں مصروف کریں۔
یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ پب جی گیم کے نقصانات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
والدین کے لیے تجاویز
والدین اگر اپنے بچوں کو ان نقصانات سے بچانا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات بہت ضروری ہیں:
بچوں کے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت کی حد مقرر کریں۔
کھلی فضاء میں کھیلوں اور مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔
بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھ کر ان کے مسائل سنیں تاکہ وہ آن لائن گیمز کو تنہائی دور کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں۔
اگر بچے میں غصے، تنہائی یا غیر معمولی رویے کی علامات نظر آئیں تو فوری طور پر ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔
پتنگ بازوں کیخلاف سخت کارروائی – عوامی تحفظ کے لیے بڑا قدم
لاہور میں پیش آنے والا یہ افسوس ناک واقعہ ایک سنگین انتباہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو پب جی گیم کے نقصانات مزید ایسے دل دہلا دینے والے سانحات کو جنم دے سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، والدین، تعلیمی ادارے اور خود نوجوان اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ آن لائن گیمز کا منفی استعمال زندگیوں کو برباد کر سکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دیں جہاں کھیل صرف تفریح کے لیے ہوں، نہ کہ قتل و غارت اور ذہنی دباؤ کا سبب۔
Comments 1