ٹک ٹاک لائیو پر پابندی کیلئے پنجاب اسمبلی میں قرارداد
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تیزی سے عوام میں مقبول ہو رہے ہیں، خاص طور پر نوجوان طبقے میں ان کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ زیرِ بحث ایپ ٹک ٹاک ہے، جس کا "لائیو چیٹ” فیچر حالیہ دنوں میں سخت تنقید کی زد میں آ گیا ہے۔ اسی تناظر میں پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک لائیو پر پابندی کی قرارداد جمع کرائی گئی ہے، جس کا مقصد نوجوان نسل کو اخلاقی زوال سے بچانا اور معاشرے میں پھیلتی بے حیائی کو روکنا ہے۔
قرارداد کس نے جمع کروائی اور کیوں؟
یہ قرارداد اپوزیشن رکن فرخ جاوید مون کی جانب سے پیش کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ٹک ٹاک لائیو کے ذریعے معاشرے میں فحاشی اور غیر اخلاقی گفتگو عام ہو چکی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں براہ راست لائیو ویڈیوز کے ذریعے نہ صرف فحش حرکات کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ان میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ صورت حال اسلامی اقدار، پاکستانی ثقافت اور اخلاقی تربیت کے خلاف ہے۔ اسی بنیاد پر اسمبلی سے اپیل کی گئی ہے کہ ٹک ٹاک لائیو پر پابندی عائد کی جائے تاکہ اس بگاڑ کو روکا جا سکے۔
ٹک ٹاک لائیو کے منفی اثرات
ٹک ٹاک کا لائیو فیچر کئی ممالک میں صرف تفریح کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں اس کا استعمال زیادہ تر غلط سمت میں جا رہا ہے۔ نوجوان نسل، خاص طور پر اسکول اور کالج جانے والے طلبا، اس فیچر کو شہرت، لائکس، گفٹس اور فوری کمائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس عمل میں وہ اپنی اخلاقی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ فحش گفتگو، غیر اخلاقی حرکات، اور برہنہ پن جیسے رویے معمول بنتے جا رہے ہیں، جس کے دور رس اثرات نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ اس پس منظر میں ٹک ٹاک لائیو پر پابندی اب محض ایک سیاسی مطالبہ نہیں بلکہ معاشرتی مجبوری بن چکا ہے۔
نوجوان نسل کا اخلاقی بگاڑ
پاکستان ایک نوجوان آبادی والا ملک ہے، اور یہی نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔ جب وہ کم عمری میں ایسے پلیٹ فارمز کے زیرِ اثر آئیں گے جہاں بے حیائی عام ہو، تو ان کی ذہنی، اخلاقی اور نفسیاتی نشونما متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال نوجوانوں کو وقتی تفریح ضرور دیتا ہے لیکن ان کی شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ ٹک ٹاک لائیو جیسے فیچرز کے ذریعے ان میں نرگسیت، جلدی شہرت کا لالچ، اور غیر فطری رویوں کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ ہم سنجیدگی سے ٹک ٹاک لائیو پر پابندی پر غور کریں۔
پہلے بھی پابندیاں کیوں لگیں؟
ٹک ٹاک پر پاکستان میں اس سے قبل بھی کئی بار پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کی بنیادی وجہ ہمیشہ ایک جیسی رہی ہے: فحاشی، غیر اخلاقی مواد، اور صارفین کی اخلاقی بگاڑ۔ اگرچہ ہر بار عارضی طور پر پابندی عائد کی گئی، لیکن چند ہفتوں یا مہینوں بعد وہ اٹھا لی گئی۔ ان اقدامات نے وقتی ریلیف تو دیا، لیکن مسئلے کا مستقل حل نہ ہو سکا۔ اب جب کہ مسئلہ مزید سنگین ہو چکا ہے، صرف وقتی پابندی کافی نہیں۔ مستقل بنیادوں پر ٹک ٹاک لائیو پر پابندی ہی واحد حل بنتی جا رہی ہے۔
ریاستی ذمہ داری اور والدین کا کردار
صرف حکومت پر انحصار کافی نہیں ہوتا۔ والدین، اساتذہ، اور معاشرتی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی۔ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنا، ان سے مکالمہ کرنا، اور انہیں اخلاقی حدود کا شعور دینا ہر گھر کا فرض ہے۔ لیکن جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خود ہی بے حیائی کو بڑھاوا دے رہے ہوں، تو ریاست کو قانونی طور پر مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری ایکشن لے اور ٹک ٹاک لائیو پر پابندی عائد کرے۔
اظہار رائے کی آزادی یا بے لگامی؟
کچھ حلقے پابندی کو اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں، لیکن آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کوئی بھی شخص کچھ بھی کرے اور معاشرہ خاموش رہے۔ جب آزادی سے معاشرہ خراب ہو، تو وہ آزادی نہیں، بد تہذیبی بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کو آزادی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کے ساتھ بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ اگر کوئی پلیٹ فارم ان حدود کو توڑ رہا ہو، تو اس پر کارروائی ناگزیر ہے۔ لہٰذا ٹک ٹاک لائیو پر پابندی آزادی کی نفی نہیں بلکہ سماجی تحفظ کی علامت ہے۔
قرارداد کا اثر اور مستقبل کی راہ
پنجاب اسمبلی میں جمع کی گئی یہ قرارداد ایک سنگین مسئلے کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ اگرچہ اس کا فوری اثر وفاقی حکومت کے ایکشن پر منحصر ہے، لیکن اس قرارداد نے بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب یہ ہماری اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم اس مسئلے کو صرف سیاسی نہ بنائیں بلکہ اس کا سماجی اور تعلیمی حل بھی تلاش کریں۔ ٹک ٹاک لائیو پر پابندی صرف ایک قانون نہیں، بلکہ ایک شعور کی ضرورت ہے جو آنے والی نسل کو گمراہی سے بچا سکتا ہے۔
غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار – مردان میں بڑی کارروائی

Comments 1