قطر پر اسرائیلی حملہ: اقوام متحدہ میں اسرائیل کو تاریخی شکست
اسرائیل کی جارحیت پر عالمی ردعمل: قطر پر حملہ اور اقوام متحدہ کی قرارداد نے اسرائیل کو عالمی تنہائی کی راہ پر ڈال دیا
قطر پر اسرائیلی حملے اور فلسطین کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی سیاسی شکست نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہے گی۔ اسرائیل، جو خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اب دنیا کے سامنے ایک غاصب اور قانون شکن ریاست کے طور پر بے نقاب ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی سفارتی ناکامی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ روز فلسطین کے مسئلے پر ایک تاریخی قرارداد منظور کی، جسے نیو یارک ڈیکلریشن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ قرارداد 142 ممالک کی بھاری اکثریت سے منظور کی گئی، جب کہ صرف 10 ممالک (بشمول اسرائیل اور امریکا) نے اس کی مخالفت کی اور 12 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
یہ قرارداد فلسطین اور اسرائیل کے مابین دو ریاستی حل کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں حماس کی مذمت بھی کی گئی ہے، اور ان سے یرغمالیوں کی رہائی، ہتھیار ڈالنے اور غزہ سے حکمرانی ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ تاہم، اس قرارداد کے ذریعے دنیا نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور دو ریاستی حل ہی اس کا پائیدار راستہ ہے۔
اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت: قطر پر حملہ
اسی دوران قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر سامنے آیا۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب قطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک اہم ثالثی کردار ادا کر رہا تھا۔ اسرائیلی حملہ قطر کے رہائشی کمپاؤنڈز پر کیا گیا، جو نہ صرف ایک خودمختار ریاست کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے، بلکہ امن عمل کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔
اسرائیل کی اس حرکت نے عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا۔ پاکستان، چین، فرانس، برطانیہ، الجزائر، صومالیہ اور دیگر کئی ممالک نے اس حملے کی مذمت کی۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا، اور دبئی ایئر شو میں اسرائیل کی شرکت پر پابندی عائد کر دی۔
پاکستان کا دوٹوک مؤقف
پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کو کرارا جواب دیتے ہوئے اسے ایک غاصب ریاست قرار دیا۔ قطر پر حملے کو بلا اشتعال، غیر قانونی اور خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا کہ:
"یہ عمل اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی کھلی خلاف ورزی ہے جو کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت کے خلاف طاقت کے استعمال کو ممنوع قرار دیتا ہے۔”
پاکستانی مندوب نے یہ بھی واضح کیا کہ قطر پر حملہ کرنے کا مطلب ایک ثالث ملک کو نشانہ بنانا ہے، جو سفارتی اور انسانی اصولوں کی مکمل پامالی ہے۔ پاکستان نے دنیا کو یاد دلایا کہ اس کا دہشتگردی کے خلاف کردار عالمی برادری میں مسلمہ ہے، اور القاعدہ کا خاتمہ بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
قطر کی دوٹوک پوزیشن
قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ:
"یہ حملہ اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے۔ کیا کبھی دنیا نے دیکھا کہ کوئی ریاست ثالث کو نشانہ بنائے؟”
انہوں نے اسرائیل کو "خون کے پیاسے انتہا پسندوں کے زیرِ قیادت ریاست” قرار دیا اور کہا کہ قطر امن کا خواہاں ہے، جنگ کا نہیں۔
عرب لیگ اور مسلم دنیا کا ردعمل
عرب لیگ پہلے ہی نیو یارک ڈیکلریشن کی توثیق کر چکی ہے اور جولائی میں 17 ممالک نے اس پر دستخط کیے تھے۔ اب قطر پر حملے کے پس منظر میں عرب ممالک کا غصہ مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ عرب اسلامی سمٹ کا اجلاس دوحہ میں بلایا گیا ہے، جس میں مسلم دنیا اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
چین اور روس کا سخت مؤقف
چین کے مندوب نے اسرائیلی حملے کو جاری سفارت کاری کو دانستہ طور پر سبوتاژ کرنے کا عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ:
"جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، تو اس پر بات چیت کے لیے دو دن بعد جو حماس ٹیم موجود تھی، اُسی کو نشانہ بنایا گیا۔”
یہ بد نیتی پر مبنی ایک ایسا عمل تھا جس کا مقصد مذاکرات کے عمل کو پٹڑی سے اتارنا تھا۔
امریکا کی کمزور پوزیشن
امریکی مندوب نے قطر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ضرور کیا، لیکن ان کا مؤقف واضح اور فیصلہ کن نہیں تھا۔ ایسے میں جب امریکا ایک طرف دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر نرم رویہ اپناتا ہے، تو یہ رویہ اس کے عالمی مؤقف کو کمزور کر دیتا ہے۔
یورپ کا بڑھتا ہوا دباؤ
فرانس اور برطانیہ نے اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ:
"یہ حملے امن کے عمل اور خود اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کے خلاف ہیں۔”
یورپی یونین کے کئی ممالک بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تیاری کر چکے ہیں، جس کا باقاعدہ اعلان 22 ستمبر کو نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے۔
انسانی المیہ اور اسرائیلی بربریت
غزہ میں اسرائیلی بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک ہی خاندان کے 14 افراد سمیت 59 فلسطینی شہید کیے گئے۔ اسرائیل کی یہ کاروائیاں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
عالمی برادری کا امتحان
اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا، خاص طور پر روس، چین، یورپی یونین اور مسلم دنیا، مل کر ایک مشترکہ مؤقف اختیار کرے۔ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کا پابند بنانا ہوگا، ورنہ خطے میں عدم استحکام مزید بڑھے گا اور امن کی کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔
دنیا ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے
قطر پر اسرائیلی حملہ اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کی سیاسی شکست نے عالمی طاقتوں کو ایک نئے چیلنج کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اب واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل اپنی جارحیت اور غیر قانونی پالیسیوں کے ذریعے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ ثالث ممالک کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو دوٹوک مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔
دنیا اب خاموش نہیں رہ سکتی۔ اگر آج قطر نشانہ ہے تو کل کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو متحد ہو کر ایک پائیدار اور منصفانہ حل کی جانب بڑھنا ہوگا، تاکہ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری دنیا کو امن نصیب ہو۔

Comments 2