قطری حملے کا جواب ہونا چاہیے فیصلہ کن اور مؤثر: دوحہ سربراہی اجلاس کا پیغام
قطری حملے کا جواب: صرف قطر نہیں، پوری امت مسلمہ کی خودداری کا امتحان
دوحہ میں جاری عرب اسلامی سربراہی اجلاس نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا رخ پیدا کر دیا ہے۔ اس اجلاس کی اہمیت صرف ایک ملک کی خودمختاری پر حملے تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اثرات پورے خطے اور امت مسلمہ پر مرتب ہوں گے۔ سوال یہ نہیں کہ قطر پر حملہ کیوں ہوا، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اب قطری حملے کا جواب کیا ہوگا، اور یہ جواب کتنا مؤثر، متحد اور پائیدار ہوگا؟
دوحہ حملہ: پس منظر اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی
9 ستمبر کو اسرائیلی فضائیہ نے دوحہ میں ایک رہائشی مقام کو نشانہ بنایا، جہاں اطلاعات کے مطابق حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ کے خاندان کے افراد موجود تھے۔ اس حملے میں ان کا بیٹا اور پانچ دیگر فلسطینی شہید ہوئے۔
یہ حملہ کسی جنگ زدہ علاقے میں نہیں، بلکہ ایک ثالثی کرنے والے امن پسند ملک میں کیا گیا، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کی دفعہ 2(4) کے مطابق:
“تمام رکن ممالک کسی بھی ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال سے اجتناب کریں گے…”
اس بنیاد پر اسرائیل کا حملہ نہ صرف قطر کی خودمختاری بلکہ بین الاقوامی امن کے ضوابط کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اسی لیے مسلم دنیا کے رہنماؤں نے اب جو مؤقف اپنایا ہے، وہ محض سیاسی نہیں بلکہ قانونی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر بھی ٹھیک ہے۔
قطر: صرف ایک چھوٹا ملک نہیں، عالمی ثالث کا کردار
قطر کا شمار اگرچہ خلیج کے چھوٹے ممالک میں ہوتا ہے، مگر اس کی معاشی، سفارتی، اور ثالثی کی حیثیت بہت بڑی ہے۔ افغانستان، ایران، فلسطین اور شام جیسے پیچیدہ تنازعات میں قطر نے بارہا ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔
دوحہ میں ہی 2020 کا "طالبان-امریکا” معاہدہ ہوا، جو افغانستان سے امریکی انخلا کا سبب بنا۔ اسی طرح غزہ میں متعدد بار جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے میں قطر نے انسانی ہمدردی، مالی امداد اور سفارت کاری کے ذریعے اہم کردار ادا کیا۔
اسی لیے جب اسرائیل نے دوحہ کو نشانہ بنایا، تو یہ پیغام بھیجنے کی کوشش کی گئی کہ:
"جو بھی فلسطینیوں کی حمایت کرے گا، وہ بھی اسرائیل کے حملے سے محفوظ نہیں۔”
یہی وہ نکتہ ہے جہاں قطری حملے کا جواب پوری امت کے لیے لازم قرار پایا ہے۔
مسلم رہنماؤں کی تقاریر: اتحاد، جذبات، اور عملی اقدامات
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف:
- “قطر پر حملہ صرف دوحہ نہیں، ہر امن دوست ریاست پر حملہ ہے۔”
- "ہم اقوام متحدہ سے اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔”
- "قطری حملے کا جواب عملی ہونا چاہیے، بیانات سے بات آگے بڑھنی چاہیے۔”
امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی:
- "ہم نے ثالثی کی، امن کے لیے کوشش کی، مگر ہمیں ہی نشانہ بنایا گیا۔”
- "قطری حملے کا جواب نہ صرف ہمارا حق ہے بلکہ ایک عالمی ضرورت ہے۔”
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان:
- "اسرائیل نے خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔”
- "اگر آج قطری حملے کا جواب نہ دیا گیا تو کل کوئی اور نشانہ ہوگا۔”
اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم:
- "قطری حملے کا جواب فیصلہ کن، روکنے والا اور مثالی ہونا چاہیے۔”
- "اب وقت ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندی کو روکا جائے۔”
عراق کی انقلابی پیشکش: اسلامی نیٹو کی بنیاد
عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے ایک غیر معمولی تجویز پیش کی:
"ہمیں نیٹو طرز کا دفاعی اتحاد بنانا ہوگا — جس میں کسی ایک اسلامی ملک پر حملہ، سب پر حملہ سمجھا جائے۔”
یہ تجویز اگرچہ پرانی سوچ کا تسلسل ہے، مگر موجودہ حالات میں اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ اگر قطری حملے کا جواب اجتماعی دفاعی اصول کے تحت دیا جائے تو اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ہو سکتے ہیں۔
او آئی سی اور عرب لیگ: محض قراردادیں نہیں، ایکشن پلان چاہیے
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور عرب لیگ کے رہنماؤں نے کہا:
- اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر سفارتی، تجارتی، اور قانونی کارروائیاں کی جائیں
- قطری حملے کا جواب صرف زبانی نہ ہو، بلکہ اس کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں
- فلسطین میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں
اقوام متحدہ کی بے بسی یا مجرمانہ خاموشی؟
یہ پہلو بھی زیر بحث آیا کہ اقوام متحدہ اب تک اسرائیل کو جوابدہ کیوں نہیں ٹھہرا سکا؟ کیا ویٹو پاورز اسرائیلی مظالم کی ڈھال بنی ہوئی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو مسلم دنیا کو متبادل سفارتی بلاک بنانے کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا دورہ قطر: تبدیلی یا تسلسل؟
امریکی وزیر خارجہ روبیو اسرائیل کے دورے کے فوراً بعد قطر پہنچ رہے ہیں۔ ان کا یہ دورہ قطری حملے کا جواب کے تناظر میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ کیا امریکا اسرائیل کو لگام دینے کے لیے تیار ہے؟ یا قطر کو خاموش کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔
عالمی میڈیا کی خاموشی: مغرب کا دوہرا معیار
دوحہ پر حملے کے بعد مغربی میڈیا کا ردعمل افسوسناک حد تک خاموش رہا۔ اگر یہی حملہ کسی مغربی ملک پر ہوا ہوتا، تو دنیا بھر میں طوفان آ چکا ہوتا۔ مگر چونکہ نشانہ ایک مسلم ملک تھا، اور حملہ آور اسرائیل، اس لیے عالمی ادارے خاموش ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں قطری حملے کا جواب نہ صرف سفارتی بلکہ میڈیا سطح پر بھی دینا ہوگا۔
کیا اسلامی دنیا متحد ہو پائے گی؟
دوحہ اجلاس ایک تاریخی موقع ہے۔ اگر اب بھی مسلم ممالک صرف قراردادوں پر اکتفا کریں، تو آئندہ کوئی بھی ملک، چاہے وہ ثالث ہو یا غیر جانبدار، محفوظ نہیں رہے گا۔ اسرائیل کی جارحیت نے اب قطر کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:
"اب وہ وقت آ چکا ہے جب امت مسلمہ کو صرف بیانات سے آگے بڑھ کر، متحد ہو کر قطری حملے کا جواب دینا ہوگا۔”
قطر پر اسرائیلی حملہ 2025: اسحاق ڈار کی دوحہ آمد اور ہنگامی عرب اسلامی اجلاس











Comments 1