قائداعظم محمد علی جناح کی آخری دنوں کی دردناک حقیقت
قائدِ اعظم کا شکر — ایک عظیم احسان
بانی پاکستان نے اپنی سیاسی بصیرت، قائدانہ صلاحیت، اور انسان دوستی سے اس قوم کو ایک الگ وطن دیا۔ وہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے رہنما نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے امید کے مینار تھے جو انصاف، مساوات اور آزادی کے خواب دیکھتے تھے۔ پاکستان کے قیام میں ان کی جدوجہد، ان کی حکمتِ عملی، اور ان کا بے لوث عزم ایسی میراث ہیں جن کے سامنے صدیاں بھی چھوٹی محسوس ہوں گی۔
لیکن افسوس کہ ہم نے کبھی سالِ رحلت پر، یا عام دنوں میں، قائدِ اعظم کی مغفرت کی دعا کرنے کا رواج بنائے بغیر، صرف خوشی کا جشن منایا ہے۔ ہر 14 اگست کو جشنِ آزادی عظیم ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی 11 ستمبر (قائد کی وفات کا دن) پر حقیقی معنوں میں انہیں یاد کیا؟ خوش فہمیوں کے زیرِ سایہ ہم ان کی عظمت کو فراموش کرنے لگے ہیں، تاریخ کی کتابوں کے ورق صرف حفظ کےلیے رہ گئے ہیں، زړه نشوونما کم ہو گئی ہے۔
آخر کے ایام — قائدِ اعظم کے جسمانی عروج سے زوال تک کا سفر
قائدِ اعظم کی طبیعت وفات کے وقت بہت خستہ تھی۔ 1 ستمبر 1948 کو انہیں زیارت سے بری فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کے نام خط لکھنا پڑا—یہ ان کی آخری تحریری منظوریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں تین لاکھ روپے کی امداد مقرر کی گئی تھی جو تھل پراجیکٹ کے مہاجر فوجیوں کی فلاح و بہبود کےلیے تھی۔
وہ کوئٹہ میں تھے جب ان کی صحت خراب ہونے لگی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ کوئٹہ کی بلندی ان کے لیے موزوں نہیں ہے، کراچی لے جانا چاہیے۔ اگلے دنوں میں نمونیا نے حملہ کیا۔ بیرونِ ملک سے ڈاکٹروں کی مدِد طلب کی گئی، مگر کامیابی نہ ہوئی۔
ان کے آخری دن بے حد تکلیف دہ تھے۔ 10 ستمبر اور 11 ستمبر کی درمیانی راتوں میں انہوں نے بے ہوش ہو کر ایسے الفاظ کہے جن سے محسوس ہوتا تھا کہ دل چاہتا ہے وہ اپنا کام مکمل کریں، مہاجرین کی مدد کریں، پاکستان کی تعمیر جاری رکھیں۔ وہ بارِ بار “پاکستان… مہاجرین… کام مکمل کرنا…” جیسے بے ترتیب مگر معنی خیز الفاظ ادا کرتے رہے۔
11 ستمبر 1948 کو، ان کو سٹریچر پر ڈال کر آپ کی حالتِ زار کے باوجود نظم و ضبط کا پورا احساس پیدا ہوا—جب عملے نے سلامی دی، قائد نے ہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔ کراچی پہنچتے تک ٹرانسپورٹ کے دوران آکسیجن کا استعمال، ان کی معاونت کرنے والوں کا فرض شناسی، ان حالات میں بھی عزت اور وقار کی مثال تھی۔
آخر کار وہ اللہ کے حضور سربکشید ہوئے، لبوں پر اللہ اور پاکستان کے نام کے الفاظ، اپنے عہد کے ساتھ، اپنے مقصد کے ساتھ اپنا سفر ختم کیا۔
شکرگزاری نہ کرنا—ایک المناک حقیقت
یہ نہایت دکھ کی بات ہے کہ ہم نے قائدِ اعظم کی مغفرت کی دعا تک کرنا معمول نہ بنایا۔ ان کی وفات کے سالانہ دن پر فاتحہ خوانی نہ کرنا، نہ صرف ایک مذہبی رویہ کی کمی ہے، بلکہ یہ ہماری قومی شعور کی کمی بھی ہے۔
ہم جشن آزادی مناتے ہیں، نعروں کا شور ہوتا ہے، ترانے ہوتے ہیں، پر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ آزادی کس قیمت پر ملی؟ کیا ہم نے کبھی سوال کیا کہ قائد اعظم نے کیسے راتیں جاگ کر گزاریں؟ غریبوں، مہاجرین، بے سہارا لوگوں کے لیے انہیں کتنی محبت تھی؟ ان کے خواب پاکستان کے نوجوان کیا جانتے ہیں؟
تاریخ کو صرف حفظِ لفظ نہ سمجھا جائے، بلکہ سبق سیکھا جائے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے”۔ مگر آج جہاں علم کا رجحان کم ہو رہا ہے، سوشل میڈیا کے چکنے چمکنے مناظر نوجوانوں کو اہم چیزوں سے دور کر رہے ہیں، وہاں قائد کی یہ نصیحت زیادہ معنویت اختیار کرتی ہے۔
تعلیم اور تاریخ کا فقدان—نوجوان نسل کا خلاء
ہماری اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں تاریخ پڑھائی جاتی ہے—مگر کیا واقعی پڑھائی جاتی ہے؟ کیا طالبعلم جانتے ہیں کہ قائد نے اپنے آخری دنوں میں کس قدر تکلیف برداشت کی؟ ان کے دل کی خواہش کیا تھی؟ ان کے نائب صدر کون تھے؟ وہ کس مایوسی میں مبتلا تھے؟ کیا یہ صرف ایک داستان ہے، یا ہمیں اس سے سبق لینا ہے؟
سوشل میڈیا ہمیں خبروں اور تصاویری جھلکیوں سے بھر دیتا ہے، مگر ان جھلکیوں کا پس منظر کم بتاتا ہے۔ قائدِ اعظم کے الفاظ، خط و کتابت، آخری دنوں کا واقعہ—یہ سب سیکھنے کا موقع ہیں، مگر وہ مٹتے جا رہے ہیں۔
قائد اعظم نے کیا چھوڑا—اور ہم نے کیا محروم کیا؟
قائد اعظم سے ہمیں یہ وراثت ملی:
- ایک متحد وطن، جہاں قانون کی حکمرانی ہو
- اقلیتوں کے ساتھ عدل ہو
- مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں برابری ہو
مہاجرین، غرباء، بے سہاروں کا خیال ہو
لیکن ہم نے محرومی کی ہے:
- مغفرت کی دعا نہ کرنا
- ان کی یاد کو محض رسمی تقاریب تک محدود کرنا
نوجوانوں کو غیر ملکی فرنچائز، فلم اور تیکنالوجی تو دکھا رہے ہیں مگر وطن کی بنیاد اور اس کا اخلاقی پہلو بھلایا جا رہا ہے
شکرگزاری کی راہ—کچھ اقدامات
سالانہ فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت: قائد اعظم کے وفات کے دن کو قومی سطح پر منظم دعا اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جائے۔
تعلیمی نصاب میں ان کے آخری وقت کا تذکرہ: سکولوں اور کالجوں میں قائد اعظم کے آخری دنوں کی تحریریں، خطوط، اور ذاتی واقعات شامل کیے جائیں تاکہ نوجوان جان سکیں کہ آزادی آسان نہیں تھی۔
تاریخی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا مواد: ویڈیوز، مختصر دستاویزی فلمیں بنیں کہ کس طرح قائد نے مہاجرین کے لیے کام کیا، کس طرح طبیعت کی تکلیف برداشت کی، اور کس طرح انسانی جذبہ بدرجہِ اتم تھا۔
تقاریب میں صرف ترانے نہ ہوں، گفتگو بھی ہو: جشن آزادی کے دن قائد اعظم کی عظمت کا ذکر ہو، پر وفات کے دن ان کی مغفرت کی دعا اور ان کے اصولوں کی بات ہو۔
اختتام—قائد اعظم زندہ ہے ان کے اصولوں میں
قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اللہ کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہوا۔ ہم شکر گزار ہیں ان کی بصیرت، ان کے جذبے، ان کی قربانی کے لیے۔ لیکن شکرگزاری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نہ صرف آزادی کا جشن منائیں، بلکہ ان کی مغفرت کریں، ان کے سبق یاد رکھیں، اور ان کی عظمت کو زندہ رکھیں۔
آج تو جشنِ آزادی ہے، کل انہیں یاد کرنے کا دن ہے—ہمیں چاہیے کہ دونوں دنوں کو شکرگزاری اور احترام کے ساتھ گزاریں۔ تاکہ آنے والی نسلیں بھی جان سکیں کہ پاکستان کیا ہے، کیوں وجود میں آیا، اور ہمیں اس کی حفاظت کس طرح کرنی ہے۔
قائدِ اعظم، آپ کو سلام ہے۔ پاکستان زندہ باد، آپ کی قربانی کبھی رائیگاں نہ جائے۔
Comments 1