سعودی عرب، نیتن یاہو کا گریٹر اسرائیل منصوبہ مسترد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا
سعودی عرب نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے گریٹر اسرائیل منصوبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے واضح کیا کہ فلسطین کے مسئلے کا واحد حل صرف ’’دو ریاستی حل‘‘ ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک کو یکطرفہ طور پر فلسطینی عوام کے حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اجلاس کی تفصیلات
یہ بیان سعودی وزیر خارجہ نے جدہ میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے دوران دیا۔ اجلاس کا مرکزی موضوع غزہ کی موجودہ المناک صورت حال اور اسرائیلی جارحیت کے اثرات تھے۔ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی۔
اجلاس کے دوران متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور فلسطینی عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔
سعودی عرب کا دو ٹوک مؤقف
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا:
- اسرائیل کے یکطرفہ اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
- غزہ میں جاری حملے انسانی المیے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔
- گریٹر اسرائیل کا تصور خطے کے امن اور مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ عالمی برادری کو فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے تاکہ نہ صرف فلسطینی عوام کو تحفظ مل سکے بلکہ اسرائیل کو بھی بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر مجبور کیا جا سکے۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ کیا ہے؟
گریٹر اسرائیل منصوبہ بنیادی طور پر نیتن یاہو اور اسرائیلی حکومت کی ایک توسیع پسندانہ پالیسی ہے جس کے تحت اسرائیل مغربی کنارے اور یروشلم کے بیشتر علاقوں پر مکمل قبضہ کر کے وہاں یہودی آبادکاروں کو بسانا چاہتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں تین ہزار سے زائد نئے یہودی آبادکاروں کو بسانے کا منصوبہ منظور کر چکا ہے۔
اس اقدام کے بعد فلسطینی علاقوں کو آپس میں منقطع کر دیا جائے گا، یروشلم اور مغربی کنارہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی گنجائش تقریباً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے کھلے عام کہا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے خواب کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔
فلسطینی عوام پر اثرات
گریٹر اسرائیل منصوبہ مسترد کرنے کی وجہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کے خلاف ہے بلکہ ان کی روزمرہ زندگی پر بھی شدید اثرات ڈالے گا۔
- فلسطینی شہری مزید محصور ہو جائیں گے۔
- معاشی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔
- تعلیمی اور صحت کے شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔
- ہزاروں خاندانوں کو جبری ہجرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی برادری کا ردعمل
اسرائیل کے اس متنازع اقدام کو دنیا بھر میں مسترد کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور کئی عالمی تنظیموں نے واضح طور پر کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ امن عمل کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
یورپی یونین نے اپنے بیان میں کہا کہ بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یہ اقدام خطے میں دو ریاستی حل کی امید کو تقریباً ختم کر دے گا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر یہ فیصلہ واپس لے اور فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرے۔
او آئی سی کا مشترکہ اعلامیہ
او آئی سی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ مسلم ممالک فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور گریٹر اسرائیل منصوبہ مسترد توسیع پسندانہ منصوبے کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اعلامیے میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ خطے میں قیامِ امن ممکن ہو سکے۔
سعودی عرب کا یہ دو ٹوک مؤقف اس بات کا واضح پیغام ہے کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ فلسطین کا مسئلہ صرف مذاکرات، انصاف اور دو ریاستی فارمولے کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس موقع پر خاموشی اختیار کی تو نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا ایک بڑے بحران کی طرف دھکیل دی جائے گی۔

Comments 1