سامعہ حجاب کیس: ٹک ٹاکر نے اغوا و دھمکیوں کا مقدمہ واپس لے لیا
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر اور ٹک ٹاکر سامعہ حجاب کے مبینہ اغوا اور دھمکیوں کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ یہ کیس اس وقت میڈیا اور عوامی حلقوں میں خاصی توجہ حاصل کر رہا ہے، کیونکہ ایک طرف یہ معاملہ ایک مشہور ٹک ٹاکر کے ساتھ پیش آنے والے مبینہ جرائم پر مبنی ہے، اور دوسری طرف اس میں قانونی تقاضوں اور عدالتی کارروائی کے حساس پہلو بھی شامل ہیں۔
سماعت کی تفصیلات
کیس کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چوہدری عامر ضیاء کی عدالت میں ہوئی۔ عدالت کے روبرو تفتیشی افسر (IO) پیش ہوئے اور کیس کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔ البتہ کیس کی مدعیہ، سامعہ حجاب، نہ تو عدالت میں حاضر ہوئیں اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش ہوا۔ اس غیر حاضری پر عدالت نے ابتدائی طور پر اظہارِ حیرت کیا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مدعیہ نے خود کو وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر مدعیہ کا کوئی قریبی رشتہ دار، جیسا کہ والد یا بھائی، موجود ہے تو وہ عدالت میں پیش ہو، بصورت دیگر مدعیہ کو خود عدالت میں آنا ہوگا۔
عدالتی رویہ اور ہدایات
ایڈیشنل سیشن جج نے واضح کیا کہ کیس کی سنگینی کے پیش نظر مدعیہ کی براہِ راست حاضری ضروری ہے۔ عدالت نے کہا:
"اگر سامعہ حجاب آج ذاتی طور پر پیش ہوسکتی ہیں تو بہتر ہے، ورنہ آئندہ تاریخ دی جائے گی۔ عدالت یک طرفہ کارروائی نہیں کرنا چاہتی، لیکن کیس کو تاخیر کا شکار بھی نہیں ہونے دیا جا سکتا۔”
مدعیہ کی عدم موجودگی کے باعث عدالت نے سماعت میں عارضی وقفہ دیتے ہوئے کیس کی کارروائی کو اگلی پیشی تک مؤخر کر دیا۔
پسِ منظر: سامعہ حجاب کون ہیں؟
سامعہ حجاب ایک نوجوان اور مشہور سوشل میڈیا شخصیت ہیں جنہوں نے مختصر وقت میں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر لاکھوں فالوورز حاصل کیے۔ ان کی ویڈیوز میں روزمرہ زندگی، فیشن، اور خواتین سے متعلق سماجی پیغامات شامل ہوتے ہیں، جنہوں نے انہیں خواتین کی آواز کے طور پر بھی نمایاں کیا۔
حال ہی میں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، اور اس واقعے کے بعد انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اس الزام کی بنیاد پر انہوں نے مقامی تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی، جس پر پولیس نے کارروائی کا آغاز کیا۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق، مدعیہ کی غیر حاضری عدالت میں کیس کے مؤثر طریقے سے چلنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اگر مدعیہ یا ان کا نمائندہ قانونی کارروائی کا حصہ نہ بنے تو عدالت کو یک طرفہ کارروائی کا اختیار حاصل ہو سکتا ہے، مگر یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب مدعیہ بار بار نوٹس کے باوجود غیر حاضر رہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ:
"اگر مدعیہ کو واقعی خطرہ لاحق ہے تو انہیں وڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی اجازت دی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے عدالتی اجازت اور تکنیکی سہولیات کا مکمل ہونا ضروری ہے۔”
مدعیہ کی جانب سے وڈیو لنک کی درخواست: ایک جائز مطالبہ یا تاخیری حربہ؟
مدعیہ سامعہ حجاب کی جانب سے وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست کے دو پہلو ہو سکتے ہیں:
جائز مطالبہ: اگر مدعیہ کو اپنی جان کو خطرہ ہے یا وہ ذہنی و جسمانی طور پر حاضر ہونے کی حالت میں نہیں ہیں، تو وڈیو لنک کے ذریعے حاضری ایک معقول مطالبہ ہو سکتا ہے، خصوصاً جب جدید ٹیکنالوجی نے عدالتی نظام میں ڈیجیٹل سہولیات کو ممکن بنا دیا ہے۔
تاخیری حربہ: کچھ قانونی ماہرین اس خدشے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ یہ اقدام کیس کو طول دینے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر مدعیہ کی طرف سے عدالتی کارروائی میں مستقل غیر حاضری اختیار کی گئی ہو۔
سماجی و عوامی ردِ عمل
یہ مقدمہ سوشل میڈیا پر نہایت سرگرمی سے زیر بحث ہے۔ سامعہ حجاب کے مداحوں اور شہری حلقوں میں ان کے حق میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ تاہم، کچھ حلقوں نے سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر الزامات اتنے سنگین ہیں تو مدعیہ براہِ راست عدالت میں پیش ہو کر ان کی وضاحت کیوں نہیں دے رہیں۔
خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے بھی اس مقدمے کو ایک "ٹیسٹ کیس” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، اگر سامعہ حجاب کے الزامات درست ہیں تو یہ ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح خواتین کو بولنے پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر الزامات غلط یا مبالغہ آمیز نکلے تو اس سے اصلی متاثرین کے مقدمات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
عدالت کی آئندہ حکمت عملی
عدالت نے واضح کیا ہے کہ وہ کیس میں غیر ضروری تاخیر نہیں ہونے دے گی۔ اگلی سماعت میں مدعیہ کی پیشی نہ ہوئی تو ممکنہ طور پر عدالت یک طرفہ طور پر کیس کی نوعیت کا تعین کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت یہ بھی دیکھے گی کہ آیا مدعیہ کو واقعی خطرہ ہے یا نہیں، اور کیا ان کی غیر حاضری کے پیچھے کوئی مجبوری ہے یا ذاتی حکمت عملی۔
اہمیت اور پیش رفت کی سمت
یہ مقدمہ نہ صرف ایک انفرادی شہری کے حقوق کا سوال ہے بلکہ پاکستان میں خواتین، خاص طور پر سوشل میڈیا پر متحرک خواتین کے تحفظ اور قانونی حیثیت کا بھی امتحان ہے۔ عدالت، پولیس، اور سماج کی مجموعی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی فرد کو انصاف دیا جائے، قطع نظر اس کی شہرت، جنس یا سوشل میڈیا فالوونگ کے۔
سامعہ حجاب کا کیس مستقبل میں ایسے بہت سے مقدمات کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ عدالتی نظام اس حساس اور عوامی توجہ کے حامل کیس کو کس طرح نمٹاتا ہے۔ اگلی سماعت میں مدعیہ کی موجودگی ممکنہ طور پر کیس کے رخ کو متعین کرے گی۔

Comments 1