ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس: دو گواہوں کے بیانات ریکارڈ، سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس کی سماعت کے دوران دو اہم استغاثہ گواہان، ڈاکٹر ہرپال کمار اور ڈاکٹر آمنہ، کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے کیس کی سماعت کی۔
یہ کیس اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب سوشل میڈیا پر مقبول 17 سالہ نوجوان ثناء یوسف کو ایک لڑکے نے مبینہ طور پر دوستی سے انکار پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ یہ افسوسناک واقعہ نہ صرف عوامی سطح پر سنسنی کا باعث بنا، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
عدالتی کارروائی: اہم گواہان کے بیانات اور جرح
سماعت کے دوران ڈاکٹر ہرپال کمار اور ڈاکٹر آمنہ نے بطور استغاثہ گواہان اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ دونوں گواہان طبی شعبے سے وابستہ ہیں اور قتل کے بعد کی طبی تحقیقات، پوسٹ مارٹم اور دیگر طبی تجزیوں میں شامل رہے تھے۔
سرکاری وکیل راجہ نوید حسین نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ دونوں گواہان ڈاکٹرز ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ مصروفیات بہت زیادہ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ملزم کے وکلاء آج ہی ان پر جرح مکمل کریں تاکہ کیس میں تاخیر نہ ہو۔
سرکاری وکیل نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ:
"دفاعی وکلاء جان بوجھ کر کیس کو طول دینے کے لیے جرح مکمل نہیں کر رہے۔ عدالت انہیں پابند کرے کہ اگلی سماعت پر جرح ہر صورت مکمل کی جائے۔”
عدالت نے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے دفاعی وکلاء کو اگلی سماعت پر استغاثہ کے ان گواہان پر جرح مکمل کرنے کی ہدایت کی اور کیس کی آئندہ سماعت 18 اکتوبر 2025 مقرر کی گئی۔
پس منظر: ثناء یوسف کا المناک قتل
ثناء یوسف ایک کم عمر اور باصلاحیت سوشل میڈیا انفلوئنسر تھیں، جنہوں نے مختصر عرصے میں لاکھوں فالوورز حاصل کیے۔ ان کی ویڈیوز میں نوجوانوں کے مسائل، مزاح، اور مثبت پیغام رسانی شامل ہوتی تھی۔ ان کی زندگی اس وقت اندوہناک انجام کو پہنچی جب ایک نوجوان نے ان سے یکطرفہ دوستی کی خواہش میں ناکامی کے بعد، ان کے گھر میں گھس کر فائرنگ کر دی۔
یہ واقعہ اسلام آباد کے ایک رہائشی علاقے میں پیش آیا تھا، اور حملہ آور جائے واردات سے فرار ہو گیا تھا، تاہم پولیس نے جلد ہی اسے گرفتار کر لیا تھا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق حملہ آور نے اعتراف کیا کہ وہ ثناء سے "محبت” کرتا تھا، اور جب ان کی جانب سے اس میں دلچسپی ظاہر نہ کی گئی، تو اس نے اشتعال میں آ کر یہ اقدام اٹھایا۔
قانونی پہلو: انصاف کا سفر اور چیلنجز
ثناء یوسف قتل کیس نہ صرف قتل عمد کا ایک افسوسناک واقعہ ہے، بلکہ یہ ڈیجیٹل شہرت، سوشل میڈیا کی حدود، اور جنسی ہراسانی جیسے گہرے مسائل کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ عدالت کی سطح پر یہ کیس اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اہم گواہان کے بیانات اور جرح سے کیس کا رخ طے ہو سکتا ہے۔
پاکستانی عدالتی نظام میں قتل کے مقدمات اکثر تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، خاص طور پر جب دفاعی وکلاء مختلف قانونی حکمتِ عملیاں اختیار کر کے کیس کو طول دیتے ہیں۔ یہی خدشات اس کیس میں بھی سامنے آ رہے ہیں، جیسا کہ سرکاری وکیل نے عدالت کے روبرو بیان کیا۔
عوامی ردِعمل اور سماجی پیغام
ثناء یوسف کی موت پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر #JusticeForSanaYousuf کے ہیش ٹیگ نے ٹرینڈ کیا، اور متعدد مشہور شخصیات، سوشل میڈیا انفلوئنسرز، اور انسانی حقوق کے کارکنان نے مطالبہ کیا کہ قاتل کو جلد از جلد قرار واقعی سزا دی جائے۔
یہ کیس ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے خودساختہ محبت کے دعوؤں، ذہنی صحت کی خرابیوں، اور خواتین کی حفاظت کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں شہرت اکثر خطرات کے ساتھ آتی ہے، اور خواتین، خصوصاً کم عمر لڑکیاں، آئے دن ہراسانی اور جنونیت کا نشانہ بن رہی ہیں۔
میڈیا اور قانونی ماہرین کی آراء
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ استغاثہ کی طرف سے اہم شواہد اور گواہان پیش کیے جا رہے ہیں، تاہم دفاعی وکلاء کی طرف سے کیس کو تاخیر کا شکار کرنا ایک عام حکمتِ عملی ہے۔ اگر عدالت نے سختی سے ٹائم لائن پر عمل نہ کرایا تو انصاف میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
معروف وکیل افنان یوسف ایڈووکیٹ کے مطابق:
"اگر طبی شہادت اور فرانزک شواہد مضبوط ہوں، تو کیس کو جلد نمٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر جرح میں غیر ضروری طوالت پیدا کی گئی تو اس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو پہنچتا ہے۔”
آئندہ پیش رفت کی اہمیت
عدالت کی جانب سے 18 اکتوبر 2025 کو ملزم کے وکلاء کو جرح مکمل کرنے کی ہدایت کے بعد، آئندہ سماعت نہایت اہمیت کی حامل ہوگی۔ اگر دفاع مکمل طور پر جرح نہیں کر پاتا یا مزید وقت طلب کرتا ہے، تو عدالت کو ممکنہ طور پر سخت احکامات جاری کرنے پڑ سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر گواہان کی شہادت پر جرح مکمل ہو گئی، تو کیس جلد ہی دلائل کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا، جس کے بعد فیصلہ محفوظ یا سنایا جا سکتا ہے۔
انصاف کی طرف ایک اور قدم
ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا قتل ایک المیہ ہے، جس نے نہ صرف ان کے اہلِ خانہ، بلکہ پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ عدالت کی حالیہ کارروائی اور گواہان کے بیانات ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دفاعی فریق اگلی سماعت میں اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے یا مزید قانونی موشگافیوں کے ذریعے تاخیر کی کوشش کی جاتی ہے۔
عدالت، وکلا، اور معاشرے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کیس کو مثالی مقدمہ بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
