شنگھائی تعاون تنظیم: چینی صدر کا اختلافات ختم کر کے اتفاق رائے پر زور
شنگھائی تعاون تنظیم: اختلافات کے بجائے اتفاق رائے کا راستہ
چینی صدر شی جن پھنگ کے بصیرت افروز خطاب کی روشنی میں ایک تجزیہ
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، طاقت کے توازن میں تبدیلی آ رہی ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں نئے رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا کو اتحاد، تعاون، اور امن کی ضرورت ہے، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے پلیٹ فارم نہایت اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ خاص طور پر چینی صدر شی جن پھنگ کی حالیہ تقریر نے ایک بار پھر اس تنظیم کی روح کو اجاگر کر دیا ہے، جس کا مرکز و محور باہمی احترام، اشتراک عمل اور علاقائی ہم آہنگی ہے۔
چینی صدر نے تیانجن میں منعقدہ ایس سی او کے سربراہان مملکت کی کونسل کے 25ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایک نہایت اہم پیغام دیا۔ انہوں نے کہا:
"ایس سی او کے رکن ممالک کو اختلافات کو پس پشت ڈال کر باہمی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔”
یہ محض ایک سفارتی جملہ نہیں بلکہ ایک گہرے وژن کی نمائندگی کرتا ہے، جو موجودہ عالمی چیلنجز کے تناظر میں نہایت اہم اور بروقت ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم: ایک مختصر تعارف
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) 2001 میں قائم ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد علاقائی سلامتی، انسداد دہشت گردی، اقتصادی ترقی، ثقافتی تبادلے، اور سیاسی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ اس کے رکن ممالک میں چین، روس، پاکستان، بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور حال ہی میں بیلاروس شامل ہو چکا ہے۔
یہ تنظیم:
دنیا کی آبادی کے 40% سے زائد کی نمائندگی کرتی ہے،
اور دنیا کے سب سے بڑے زمینی بلاک پر مشتمل ہے۔
ایسے میں اس پلیٹ فارم کی حیثیت صرف علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہو چکی ہے۔
صدر شی جن پھنگ کا پیغام: اختلافات نہیں، اتفاق اہم ہے
صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں جو سب سے اہم بات کہی، وہ یہ تھی کہ:
"تمام رکن ممالک ایک دوسرے کے دوست اور شراکت دار ہیں۔ ہمیں اختلافات کا احترام کرتے ہوئے تزویراتی روابط کو برقرار رکھنا چاہیے اور باہمی اتفاق رائے کو فروغ دینا چاہیے۔”
یہ جملہ ایک نئے سفارتی رویے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ:
اختلافات کو کشیدگی کی بنیاد نہ بنایا جائے،
نظریاتی یا جغرافیائی اختلاف کو دشمنی کی شکل نہ دی جائے،
ہر ملک کی خودمختاری، نظریات اور مفادات کا احترام کیا جائے،
اور مشترکہ مفاد کے لیے مصنوعی سرحدوں کو ذہنی طور پر توڑا جائے۔
اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا مطلب
دنیا میں کوئی دو ممالک مکمل طور پر ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ چاہے وہ مذہب، ثقافت، سیاسی نظام یا اقتصادی ماڈل ہو — ہر ملک کی اپنی شناخت ہوتی ہے۔ ایس سی او کے رکن ممالک بھی مختلف پس منظر رکھتے ہیں:
چین ایک سوشلسٹ ماڈل پر عمل پیرا ہے۔
بھارت جمہوری نظام رکھتا ہے۔
پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔
روس اور وسطی ایشیائی ممالک ایک منفرد سیاسی و سماجی ڈھانچہ رکھتے ہیں۔
ایسے میں اختلافات ہونا فطری ہے۔ مگر شی جن پھنگ کا پیغام یہ ہے کہ:
"اختلافات کو تعلقات میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے بلکہ ان سے سیکھنے اور سمجھنے کی راہیں ہموار کرنی چاہییں۔”
اتفاق رائے: کامیابی کی کنجی
صدر شی نے جن اصولوں پر زور دیا، ان میں ایک اہم نکتہ تھا "اتفاق رائے پیدا کرنا”۔
اتفاق رائے کوئی وقتی یا سطحی عمل نہیں بلکہ ایک مسلسل، سنجیدہ اور گہرا سفارتی عمل ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ:
رکن ممالک کے درمیان اعتماد (trust) کی فضا قائم ہو،
فیصلے مشترکہ مشاورت سے کیے جائیں،
بڑے ممالک چھوٹے ممالک کی رائے کا احترام کریں،
اور فیصلوں میں باہمی مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔
ایس سی او میں اگر اتفاق رائے کی روایت مضبوط ہو جائے تو یہ تنظیم دیگر علاقائی اتحادوں کے لیے بھی ایک مثالی ماڈل بن سکتی ہے۔
تزویراتی روابط کی اہمیت
شی جن پھنگ نے "تزویراتی رابطوں کو قائم رکھنے” پر خاص زور دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:
سیاسی قیادتوں کے درمیان مسلسل مکالمہ رہے،
وزارتی سطح پر اجلاسوں کا تسلسل برقرار رہے،
اور ہر بحران یا چیلنج کا سامنا باہمی مشاورت سے کیا جائے۔
ایسی حکمت عملی نہ صرف مسائل کو فوری حل کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ طویل مدتی شراکت داری کو بھی مضبوط بناتی ہے۔
اتحاد و تعاون کی روح
چینی صدر نے اپنی تقریر کا اختتام "اتحاد و تعاون کو مضبوط بنانے” کے مشورے سے کیا، جو اس تنظیم کی اصل روح ہے۔
اتحاد کا مطلب ہے:
رکن ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں، خاص طور پر مشکل وقت میں۔
سیکیورٹی، معیشت، تعلیم، صحت، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مشترکہ اقدامات کیے جائیں۔
جبکہ تعاون کا مطلب ہے:
ایک دوسرے کی ترقی میں ہاتھ بٹانا،
معلومات کا تبادلہ،
اور مشترکہ منصوبے شروع کرنا، جیسے کہ:
ریلوے و شاہراہیں،
ڈیجیٹل انیشی ایٹو،
تعلیمی پروگرام،
انسداد دہشت گردی مشقیں۔
چین کا سفارتی وژن: ہم نصیب معاشرہ
چینی قیادت، خاص طور پر شی جن پھنگ، ایک طویل عرصے سے دنیا کو "مشترکہ مستقبل کے حامل انسانی معاشرے” (Community of Shared Future for Mankind) کا تصور دے رہی ہے۔ ان کے مطابق:
دنیا کو تقسیم، محاذ آرائی اور بالادستی کے بجائے شراکت، امن، اور انصاف کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔
ایس سی او اسی وژن کی عملی مثال بن سکتا ہے اگر اس کے رکن ممالک شی جن پھنگ کے مشورے کو سنجیدگی سے لیں۔
نتیجہ: کیا ہمیں واقعی اختلافات چھوڑنے کی ضرورت ہے؟
جی ہاں! موجودہ عالمی تناظر میں جہاں:
تجارتی جنگیں بڑھ رہی ہیں،
جغرافیائی کشیدگیاں شدت اختیار کر رہی ہیں،
اور ثقافتی تضادات کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے،
وہاں شنگھائی تعاون تنظیم جیسے پلیٹ فارم ہی وہ فضا فراہم کر سکتے ہیں جہاں گفتگو، برداشت، اور شراکت کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔
چینی صدر کا مشورہ محض رسمی بات نہیں بلکہ ایک ایسی عملی راہنمائی ہے جس پر چل کر رکن ممالک نہ صرف اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ:
"تعاون، تصادم سے بہتر ہے، اور اتفاق، اختلاف پر فوقیت رکھتا ہے۔”
شی جن پھنگ کا خطاب نہ صرف ایس سی او ممالک کے لیے ایک پالیسی گائیڈ ہے بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک سفارتی اخلاقیات کا سبق ہے۔ اگر رکن ممالک اس پر عمل کریں تو ایس سی او نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر امن، ترقی اور ہم آہنگی کا روشن مینار بن سکتی ہے۔
