ایس سی او اعتماد کے ساتھ عالمی سطح کی سفارتی قوت بن رہی ہے: صدر بیلاروس
ایس سی او اعتماد کے ساتھ عالمی سطح کی سفارتی قوت بن رہی ہے، صدر بیلاروس
بین الاقوامی سیاست میں روز بروز بدلتے ہوئے منظرنامے اور نئی طاقتوں کے ابھار کے درمیان، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) نے عالمی سطح پر ایک مؤثر سفارتی، معاشی اور سیکیورٹی پلیٹ فارم کی حیثیت سے خود کو منوایا ہے۔ حالیہ دنوں میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ایک تحریری انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ایس سی او نہ صرف ایک علاقائی اتحاد ہے بلکہ یہ اعتماد، تعاون اور مشترکہ ترقی کے اصولوں پر مبنی ایک عالمی سفارتی قوت میں تبدیل ہو رہی ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب صدر لوکاشینکو چین میں ایس سی او تیانجن سربراہ اجلاس اور دوسری جنگِ عظیم میں فتح کے یومِ یادگار کی تقریبات میں شرکت کے لیے موجود ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر شِنہوا نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی بلکہ چین اور بیلاروس کے درمیان گہرے اور تاریخی تعلقات کا بھی ذکر کیا۔
ایس سی او: ایک منفرد علاقائی ماڈل
صدر لوکاشینکو نے کہا کہ ایس سی او نے "کثیرالجہتی تعاون” (Multilateralism) کے اصولوں پر چلتے ہوئے ایک ایسا منفرد ماڈل تیار کیا ہے جو نہ صرف علاقائی سلامتی کو فروغ دیتا ہے بلکہ معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بھی راہیں ہموار کرتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ تنظیم اب اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں وہ دنیا کے اہم سفارتی پلیٹ فارمز میں شامل ہو کر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے۔
بیلاروسی صدر نے یہ بھی کہا کہ ایس سی او کی پالیسیوں میں "عدم مداخلت”، "قومی خودمختاری کا احترام” اور "باہمی تعاون” جیسے اصول شامل ہیں، جو اس تنظیم کو مغربی اتحادیوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس سی او کسی بھی ملک کو دبانے یا زیرِ اثر لانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد مشترکہ مفادات کا تحفظ اور متوازن ترقی کو یقینی بنانا ہے۔
بیلاروس اور چین: مثالی باہمی اعتماد
اس انٹرویو کے دوران صدر لوکاشینکو نے چین اور بیلاروس کے تعلقات کو "انتہائی درجے کے باہمی اعتماد اور احترام” پر مبنی قرار دیا۔ ان کے بقول، بیلاروس کے لیے چین نہ صرف ایک اسٹریٹجک شراکت دار ہے بلکہ ایک مخلص اور قابل اعتماد دوست بھی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صدر شی جن پھنگ کی قیادت میں چین نے بیلاروس کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ "شی جن پھنگ کی پختہ حمایت کی بدولت بیلاروس-چین تعلقات تاریخ کی سب سے بلند سطح یعنی سدابہار جامع اسٹریٹجک شراکت داری تک پہنچ چکے ہیں۔”
یہ الفاظ اس بات کا مظہر ہیں کہ بیلاروس نہ صرف چین کے ساتھ سیاسی اور سفارتی ہم آہنگی رکھتا ہے بلکہ اقتصادی، تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی میدانوں میں بھی گہرے تعاون کا خواہاں ہے۔
شی جن پھنگ: قائدانہ خصوصیات کا عالمی نمونہ
صدر لوکاشینکو نے چینی صدر شی جن پھنگ کی قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ شی نہ صرف ایک حکمت عملی کے ساتھ سوچنے والے رہنما ہیں بلکہ ان کی سوچ آئندہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان کے بقول، "شی میں جو قائدانہ خصوصیات موجود ہیں وہ دنیا کے کسی بھی رہنما کے لیے ایک مثال ہو سکتی ہیں۔”
انہوں نے ان خصوصیات میں تین اہم عناصر کی نشاندہی کی:
اپنے لوگوں کے لیے گہری ذمہ داری
مستقبل بین حکمت عملی
غیر متزلزل ارادہ اور عزم
ان کے مطابق، موجودہ عالمی صورتحال جس میں غیر یقینی، تنازعات اور طاقت کی کشمکش غالب ہے، ایسے وقت میں صدر شی جن پھنگ نے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک واضح اور روشن ترقیاتی راستہ متعین کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے رہنما عالمی سیاست میں نایاب ہوتے ہیں۔
تاریخی قربانیاں اور مشترکہ ورثہ
صدر لوکاشینکو نے دوسری جنگِ عظیم میں چین اور بیلاروس کی مشترکہ قربانیوں کو بھی یاد کیا۔ ان کے بقول، دونوں ممالک نے فسطائیت کے خلاف لڑائی میں نہ صرف جانی و مالی قربانیاں دی بلکہ ایک اہم کردار بھی ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ "یہ فتح محض عسکری کامیابی نہیں تھی بلکہ انسانی اقدار، آزادی اور امن کی فتح تھی، جسے یاد رکھنا اور آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا نہایت ضروری ہے۔”
ان کی یہ بات عالمی سطح پر اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ تاریخی ورثے کو صرف ماضی کی یاد کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے حال اور مستقبل کی رہنمائی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
بیلاروس کی ایس سی او میں شمولیت: ایک نیا باب
بیلاروس شنگھائی تعاون تنظیم کا تازہ ترین مکمل رکن بنا ہے۔ اس تناظر میں لوکاشینکو کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیلاروس کی ایس سی او میں شمولیت نہ صرف سفارتی سطح پر ایک اہم قدم ہے بلکہ یہ علاقائی تعاون اور امن کے فروغ میں بھی سنگِ میل ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیلاروس ایس سی او کے مقاصد سے مکمل ہم آہنگ ہے اور تنظیم کے ذریعے وہ نہ صرف علاقائی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک "پل” بننے کا خواہاں ہے۔
ایس سی او کا بڑھتا ہوا عالمی اثر
صدر لوکاشینکو کے خیالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک روایتی علاقائی اتحاد سے بڑھ کر اب عالمی سطح پر ابھرنے والی ایک مؤثر تنظیم بنتی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی ہے – یعنی باہمی احترام، عدم مداخلت، مساوی تعاون اور مشترکہ ترقی – وہ آج کے بین الاقوامی منظرنامے میں نہایت کمیاب ہیں۔
بیلاروس جیسے یورپی ملک کی اس تنظیم میں شمولیت اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اس بات کی علامت ہیں کہ عالمی سیاست میں ایک نئی طاقت کا ابھار ہو رہا ہے جو مغربی اثر و رسوخ کے برعکس، ہم آہنگی، شراکت اور پرامن ترقی پر یقین رکھتی ہے۔
صدر لوکاشینکو کے خیالات اس امر کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین کی قیادت نہ صرف اپنے قومی مفادات کو دیکھتی ہے بلکہ عالمی برادری کے ساتھ ایک متوازن، پُرامن اور ترقی پسند تعلقات قائم رکھنے کی خواہاں ہے۔ ایسے میں ایس سی او کی عالمی اہمیت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔