ملتان میں سیلابی صورتحال: شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہونے کا خدشہ
ملتان اور اس کے گردونواح میں دریائے چناب کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہونے کا شدید خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اگر بند کو شگاف پڑ گیا یا انتظامیہ کو اسے توڑنا پڑا تو نہ صرف مقامی آبادی بلکہ ریلوے کا نظام بھی مفلوج ہو جائے گا۔ اس وقت تھال ایکسپریس، مہر ایکسپریس اور ڈی جی خان شٹل سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ریل کے راستوں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔
دریائے چناب میں خطرناک صورتحال
محکمہ موسمیات اور مقامی انتظامیہ کے مطابق دریائے چناب ملتان کے مقام پر مسلسل بلند سطح پر بہہ رہا ہے۔ پانی کے دباؤ کے پیش نظر شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بند کو بچانے کے لیے مقامی حکام ریسکیو اور حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں، مگر پانی کا بہاؤ غیرمعمولی ہے۔
اہم شاہراہیں جیسے ہیڈ محمد والا اور شیر شاہ روڈ پہلے ہی سیلابی ریلے میں ڈوب چکی ہیں، جس کے باعث ملتان کا مظفرگڑھ، ڈی جی خان، لیہ اور بکھر سمیت بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا ہے۔
ریلوے سروس پر ممکنہ اثرات
ریلوے حکام کے مطابق اگر شیر شاہ بند کو نقصان پہنچا یا پانی کا دباؤ بڑھ گیا تو شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہونا ناگزیر ہوگا۔ تھال ایکسپریس، مہر ایکسپریس اور ڈی جی خان شٹل کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
ٹرین سروس بند ہونے کی صورت میں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ملتان ریجن جنوبی پنجاب کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والا ایک اہم ریلوے حب ہے۔
بھارتی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی
صورتحال کو مزید سنگین بنانے والی خبر یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت جاری ہے۔ وزارت آبی وسائل کے مطابق بھارت نے دریائے ستلج میں مزید پانی چھوڑ دیا ہے، جس سے نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کے دیگر حصے بھی متاثر ہوں گے۔ یہ اقدام سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بھارت نے سفارتی چینل کے ذریعے پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا سامنا کرنے والا ہے۔ اس پیش گوئی کے بعد وزارت آبی وسائل نے ہنگامی الرٹ جاری کیا ہے اور پی ڈی ایم اے پنجاب نے دریائے ستلج میں اونچے درجے کے سیلاب سے متعلق وارننگ جاری کر دی ہے۔
دریائے ستلج میں خطرناک صورتحال
دریائے ستلج میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہری پور، فیروز پور سمیت متعدد مقامات پر سیلابی ریلے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ مقامی آبادی کو نقل مکانی کی ہدایات دی جا رہی ہیں تاکہ جانی نقصان سے بچا جا سکے۔
اگرچہ یہ صورتحال براہ راست دریائے چناب کے مقام پر شیر شاہ بند سے مختلف ہے، مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دونوں دریاؤں میں بگڑتی ہوئی صورتحال اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مقامی آبادی پر اثرات
سیلابی صورتحال نے مقامی آبادی کو سخت متاثر کیا ہے۔ ہزاروں افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں جبکہ کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب رہی ہیں۔ اگر شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہوئی تو نہ صرف مسافروں کو مشکلات پیش آئیں گی بلکہ اشیائے خورونوش کی ترسیل بھی بری طرح متاثر ہوگی۔
کسان طبقہ پہلے ہی پریشان ہے کیونکہ دریائے چناب اور ستلج دونوں کے سیلابی ریلوں نے زرعی زمینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
انتظامیہ کے اقدامات
ضلعی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے تاکہ شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر نہ ہو۔ بند کو بچانے کے لیے مٹی کے تھیلوں اور دیگر حفاظتی اقدامات جاری ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پانی کا دباؤ اسی طرح برقرار رہا تو بند کو بچانا مشکل ہوگا۔
پی ڈی ایم اے اور ریسکیو ادارے ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کر رہے ہیں، مگر بڑھتے ہوئے پانی کے بہاؤ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
قومی سطح پر خدشات
یہ صورتحال صرف ملتان تک محدود نہیں۔ بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے سے پاکستان کے دیگر علاقے بھی خطرے میں ہیں۔ اگر صورتحال قابو میں نہ آئی تو بڑے پیمانے پر تباہی ہو سکتی ہے۔
قومی سطح پر حکام نے واضح کیا ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی سطح پر اٹھائی جائے گی۔
پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی، مسافروں کے لیے بڑا مسئلہ
موجودہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ دریائے چناب کے مقام پر بڑھتے ہوئے پانی کے دباؤ نے انتظامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ہنگامی منصوبہ بندی کرے۔ سب سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ شیر شاہ بند ٹوٹنے سے ٹرین سروس متاثر ہو سکتی ہے، جس سے جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے درمیان زمینی اور ریلوے رابطے مزید متاثر ہو جائیں گے۔










Comments 1