شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید کو مفتی اعظم سعودی عرب کا عہدہ سونپا گیا
سعودی عرب کے شاہی دیوان نے ایک تاریخی فیصلے میں شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید کو مفتی اعظم سعودی عرب مقرر کیا ہے۔ یہ تقرری شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی وفات کے بعد عمل میں آئی، جن کا انتقال منگل کی صبح ہوا۔ شاہی اعلامیے کے مطابق، شیخ صالح بن حمید کو ان کی دینی خدمات، علمی قابلیت، اور تجربے کی بنیاد پر اس اہم عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔
شیخ صالح بن حمید کا تعارف
شیخ صالح بن حمید 1949 میں سعودی عرب کے شہر بریدہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مقامی دینی مدارس سے حاصل کی اور بعد میں مکہ مکرمہ کی معروف اسلامی یونیورسٹی سے فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی علمی قابلیت نے انہیں عالم اسلام میں ایک نمایاں مقام عطا کیا۔ شیخ صالح نہ صرف ایک ممتاز عالم دین ہیں بلکہ انہوں نے مفتی اعظم سعودی عرب کے طور پر دینی رہنمائی کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہے۔
انہوں نے 2002 سے 2009 تک سعودی شوریٰ کونسل کے اسپیکر کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے قانون سازی اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا یہ تجربہ انہیں مفتی اعظم سعودی عرب کے عہدے کے لیے ایک مثالی امیدوار بناتا ہے، کیونکہ اس عہدے پر دینی اور انتظامی دونوں صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مفتی اعظم سعودی عرب کا کردار
مفتی اعظم سعودی عرب کا عہدہ سعودی عرب کے دینی نظام میں سب سے بلند مقام رکھتا ہے۔ یہ عہدہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے دینی رہنمائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مفتی اعظم فتاویٰ جاری کرتے ہیں، جو اسلامی قوانین اور شریعت کے مطابق عوام اور اداروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ شیخ صالح بن حمید سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس عہدے پر رہتے ہوئے معاشرتی مسائل، دینی تعلیمات، اور جدید چیلنجوں کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کریں گے۔
مفتی اعظم سعودی عرب کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں، دینی اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں، اور سعودی عرب کی دینی شناخت کو مضبوط بنائیں۔ شیخ صالح کی تقرری سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس عہدے کی عظیم ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں گے۔
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کی وفات
سعودی دیوان شاہی نے منگل کی صبح شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی وفات کا اعلان کیا۔ وہ طویل عرصے تک مفتی اعظم سعودی عرب کے عہدے پر فائز رہے اور ان کی خدمات کو عالم اسلام میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے انتقال سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے شیخ صالح بن حمید کی تقرری ایک اہم قدم ہے۔
شیخ صالح بن حمید کی علمی خدمات
شیخ صالح بن حمید نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دینی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی فقہ کی تحقیق میں صرف کیا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کی اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو فقہ اور شریعت کے اصول پڑھائے۔ ان کی تحریروں اور خطبات میں اسلامی تعلیمات کو جدید دور کے چیلنجوں سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مفتی اعظم سعودی عرب کے طور پر، وہ اسی مشن کو جاری رکھیں گے اور عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
سعودی عرب میں دینی قیادت کی اہمیت
سعودی عرب اسلامی دنیا کا مرکز ہے، کیونکہ یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہروں کا گھر ہے۔ مفتی اعظم سعودی عرب کا عہدہ اس دینی قیادت کا ایک اہم حصہ ہے جو عالم اسلام کو متحد رکھنے اور شریعت کے مطابق رہنمائی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ شیخ صالح بن حمید کی تقرری سے سعودی عرب کی دینی قیادت کو ایک نئی جہت ملے گی۔
شیخ صالح بن حمید کی شوریٰ کونسل میں خدمات
شوریٰ کونسل کے اسپیکر کے طور پر، شیخ صالح نے سعودی عرب کی قانون سازی اور پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے دینی اور معاشرتی مسائل پر گہری نظر رکھی اور ملکی ترقی کے لیے کلیدی سفارشات پیش کیں۔ ان کا یہ تجربہ انہیں مفتی اعظم سعودی عرب کے عہدے پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مدد دے گا۔
عالم اسلام کے لیے ایک نئی امید
شیخ صالح بن حمید کی تقرری کو عالم اسلام کے لیے ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کی علمی قابلیت، دینی بصیرت، اور انتظامی تجربہ انہیں اس عہدے کے لیے موزوں بناتا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مفتی اعظم سعودی عرب کے طور پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے۔
شیخ صالح بن حمید کے عزائم
شیخ صالح بن حمید نے اپنی تقرری کے بعد کہا کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مفتی اعظم سعودی عرب کے عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کریں گے۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے فروغ، معاشرتی ہم آہنگی، اور جدید چیلنجوں کے حل کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ انتقال کر گئے
شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید کی مفتی اعظم سعودی عرب کے طور پر تقرری ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان کی علمی قابلیت، دینی بصیرت، اور انتظامی تجربہ انہیں اس عہدے کے لیے ایک مثالی انتخاب بناتا ہے۔ سعودی عرب اور عالم اسلام ان سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، اور امید ہے کہ وہ اس عہدے کی عظیم ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں گے۔









