سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع – لیسکو کا بڑا فیصلہ
پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے جہاں کھیت کھلیان اجاڑ دیے اور شہریوں کو مشکلات میں ڈال دیا، وہیں بجلی صارفین کے مسائل بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے بڑا فیصلہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع کی جائے گی تاکہ متاثرہ صارفین کو کچھ ریلیف مل سکے۔
یہ اقدام نہ صرف متاثرہ صارفین کے لیے سہولت کا باعث ہے بلکہ بجلی کمپنی کی جانب سے انسانی ہمدردی پر مبنی ایک عملی قدم بھی سمجھا جا رہا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے بجلی کے بلوں کا بحران
جب سیلاب آتا ہے تو سب سے پہلے عام شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔ گھروں میں پانی داخل ہو جاتا ہے، مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں، روزگار متاثر ہوتا ہے اور ایسے میں بجلی کے بل بھرنا ایک بڑا بوجھ بن جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا۔
لیسکو کے مطابق راوی روڈ، گلشن راوی اور شاہ پور ڈویژن کے علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح قصور کے متعدد علاقے بھی سیلاب کی زد میں آئے ہیں۔ ان علاقوں کے صارفین کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے، اسی لیے سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اوسط بلز کا اجرا
سیلاب کے باعث لیسکو کے میٹر ریڈرز بہت سے علاقوں میں ریڈنگ لینے سے قاصر رہے۔ پانی کے جمع ہونے اور آمد و رفت کی دشواریوں کی وجہ سے میٹرز تک رسائی ممکن نہ رہی۔ اس صورتحال میں کمپنی نے گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین کو اوسط بلز بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یہ اوسط بلز بجلی کے پچھلے استعمال کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں تاکہ صارفین کو وقتی طور پر کسی بڑی پریشانی سے بچایا جا سکے۔ تاہم ساتھ ہی صارفین کو یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع کے تحت مقررہ وقت سے زیادہ مہلت حاصل کر سکیں۔
حکومتی ہدایات اور لیسکو کا عمل درآمد
وفاقی حکومت نے ہدایات جاری کیں کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔ ان ہی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے لیسکو نے یہ قدم اٹھایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع دی جائے۔
اس فیصلے کا اطلاق صرف گھریلو صارفین تک محدود نہیں بلکہ کمرشل اور صنعتی صارفین پر بھی ہوگا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی طبقہ مشکلات میں نہ رہے اور بل جمع کرانے میں آسانی حاصل کر سکے۔
صارفین کے لیے سہولت کا طریقہ کار
متاثرہ صارفین کو یہ سہولت حاصل کرنے کے لیے متعلقہ لیسکو دفاتر سے رجوع کرنا ہوگا۔ وہاں پر درخواست دینے کے بعد ان کے بلوں کی مقررہ تاریخ میں توسیع کر دی جائے گی۔ اس طرح وہ اضافی جرمانے یا کنکشن منقطع ہونے کے خوف کے بغیر بل بعد میں بھی جمع کرا سکیں گے۔
یہ فیصلہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے باعثِ سکون ہے جن کے گھروں اور کاروباری جگہوں پر پانی داخل ہو چکا ہے اور وہ کسی بھی صورت بل وقت پر ادا نہیں کر سکتے۔ اس سہولت کے تحت سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع انہیں وقتی ریلیف فراہم کرے گی۔
متاثرہ علاقوں کے مسائل
سیلاب کے باعث متاثرہ علاقوں کے صارفین کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے:
گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے برقی آلات خراب ہو گئے۔
کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور آمدنی کم ہو گئی۔
کئی علاقوں میں بجلی کے کھمبے اور لائنیں متاثر ہوئیں جس کے باعث بجلی فراہمی بھی متاثر رہی۔
ایسے حالات میں بل بھرنا اضافی بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔
اسی پس منظر میں لیسکو کا فیصلہ کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع کی جائے، عوام کے لیے ایک ریلیف ہے۔
صارفین کی آراء
کئی صارفین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ سہولت وقتی ہے لیکن اس نے ان کی مشکلات میں کمی ضرور کی ہے۔
ایک صارف نے کہا:
"ہمارے گھر میں پچھلے دو ہفتوں سے پانی جمع ہے، آمدنی بند ہے اور ایسے میں بل کیسے بھریں؟ یہ سہولت ہمارے لیے بہت بڑی مدد ہے۔”
مستقبل کے لیے اقدامات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ وقتی ریلیف ہے لیکن حکومت اور بجلی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ مستقبل کے لیے ایک جامع پالیسی بنائیں۔ ہر سال بارشوں اور سیلاب کے دوران یہی مسائل پیش آتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ:
متبادل بلنگ نظام بنایا جائے۔
ایسے صارفین کو خصوصی ریلیف پیکیجز دیے جائیں۔
متاثرہ علاقوں میں بجلی کے ڈھانچے کو بہتر کیا جائے۔
اس طرح ہر سال بارشوں اور سیلاب کے بعد شہریوں کو مشکلات سے بچایا جا سکتا ہے۔
نیپرا میں واپڈا کی درخواست، پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ متوقع
لیسکو کا یہ فیصلہ کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع دی جائے، ایک مثبت قدم ہے جو متاثرہ صارفین کو وقتی ریلیف فراہم کرے گا۔ یہ فیصلہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ عوامی مشکلات کو سمجھا جا رہا ہے اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔