سندھ کی ترقی: عظمیٰ بخاری اور شرجیل میمن کے درمیان تنقیدی مکالمہ
سیاسی مکالمے کا پس منظر
پاکستان کی سیاست میں صوبائی ترقی کے معاملات ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں۔ حال ہی میں، پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری اور سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ سامنے آیا ہے، جس کا مرکزی موضوع سندھ کی ترقی ہے۔ عظمیٰ بخاری نے شرجیل میمن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ وفاق اور پنجاب کی فکر تو کرتے ہیں، لیکن سندھ کی ترقی کے لیے اتنی توجہ نہیں دیتے
۔ دوسری جانب، شرجیل میمن نے جواباً پنجاب کی گورننس پر سوالات اٹھائے اور سندھ میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا دفاع کیا۔ اس مضمون میں ہم اس مکالمے کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور سندھ کی ترقی کے تناظر میں دونوں رہنماؤں کے موقف کا تجزیہ کریں گے۔
عظمیٰ بخاری کا موقف: سندھ کی حالت زار
عظمیٰ بخاری نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے مسلسل حکومت کے باوجود سندھ کو "زمانہ قدیم” کا علاقہ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے، جس کی وجہ سے صوبہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں گندم کی کوئی کمی نہیں اور وافر مقدار میں گندم موجود ہے، جو پنجاب کی موثر گورننس کی عکاسی کرتا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بھی بات کی، جو مریم نواز کی تعریف کر چکے ہیں۔ انہوں نے شرجیل میمن سے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے چیئرمین کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے؟
یہ بیان سندھ کی ترقی کے حوالے سے ایک اہم سوال اٹھاتا ہے کہ کیا سندھ میں گورننس کے مسائل کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں؟ عظمیٰ بخاری کا موقف واضح ہے کہ سندھ کی موجودہ حالت کی ذمہ داری وہاں کی حکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے۔
شرجیل میمن کا جواب: سندھ کی ترقیاتی کامیابیاں
شرجیل میمن نے عظمیٰ بخاری کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اب بھی 12 لاکھ ٹن گندم موجود ہے، جو صوبے کی زرعی صلاحیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے تاکہ سندھ کی ترقی کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ شرجیل میمن نے پنجاب کے سیلاب سے متعلق کہا کہ اگر وہاں بہتر پلاننگ ہوتی تو نقصانات کم ہوتے۔ انہوں نے عظمیٰ بخاری کو براہ راست جواب دینے سے گریز کیا اور اپنی توجہ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں پر مرکوز رکھی۔
شرجیل میمن نے کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں کی آمد اور خواتین کے لیے الیکٹرک اسکوٹیز کے منصوبے کا ذکر کیا، جو سندھ کی ترقی کے لیے سندھ حکومت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبے صوبے کے شہریوں، خصوصاً خواتین، کی زندگیوں میں بہتری لائیں گے۔
سندھ کی ترقی کے چیلنجز
سندھ کی ترقی کے حوالے سے کئی چیلنجز ہیں جو اس مکالمے سے عیاں ہوتے ہیں۔ سندھ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن اسے بنیادی ڈھانچے، صحت، تعلیم، اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ شرجیل میمن کے ذکر کردہ ڈبل ڈیکر بسوں اور الیکٹرک اسکوٹیز جیسے منصوبے ان مسائل کے حل کی جانب ایک قدم ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی کامیابی کا انحصار عمل درآمد پر ہے۔
دوسری جانب، عظمیٰ بخاری کا یہ کہنا کہ سندھ "زمانہ قدیم” کا علاقہ بن گیا ہے، ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دیہی سندھ میں اب بھی بہت سے علاقوں میں بجلی، پانی، اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی محدود ہے۔ سندھ کی ترقی کے لیے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب کی گورننس: ایک موازنہ
عظمیٰ بخاری نے پنجاب کی گورننس کو سندھ کی ترقی کے مقابلے میں ایک کامیاب ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گندم کی وافر مقدار موجود ہے، جو صوبے کی زرعی پالیسیوں کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، پنجاب میں مریم نواز کی قیادت میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز ہوئی ہے، جس کی بلاول بھٹو نے بھی تعریف کی۔
تاہم، شرجیل میمن نے پنجاب کی گورننس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بہتر پلاننگ سے سیلاب کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا تھا۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ دونوں صوبوں کے رہنما ایک دوسرے کی گورننس پر سوالات اٹھا رہے ہیں، لیکن سندھ کی ترقی کے تناظر میں سندھ کو زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔
سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ
شرجیل میمن نے کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں اور الیکٹرک اسکوٹیز کے منصوبوں کا ذکر کیا، جو سندھ کی ترقی کے لیے اہم اقدامات ہیں۔ کراچی، جو پاکستان کا معاشی مرکز ہے، طویل عرصے سے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے۔ ڈبل ڈیکر بسیں شہریوں کے لیے ایک سستا اور موثر ٹرانسپورٹ کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح، خواتین کے لیے الیکٹرک اسکوٹیز کا منصوبہ صنفی مساوات اور خواتین کی نقل و حرکت کو بہتر بنانے کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔
تاہم، ان منصوبوں کی کامیابی کے لیے شفاف عمل درآمد اور پائیداری ضروری ہے۔ سندھ کی ترقی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ یہ منصوبے کس طرح عام شہریوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر یہ منصوبے کامیاب ہوتے ہیں، تو یہ سندھ حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
سیاسی تنقید یا تعمیری مکالمہ؟
عظمیٰ بخاری اور شرجیل میمن کے درمیان یہ مکالمہ سیاسی تنقید کا ایک حصہ ہے یا سندھ کی ترقی کے لیے ایک تعمیری بحث؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں رہنما اپنے اپنے صوبوں کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے بیانات میں ایک دوسرے پر تنقید کا عنصر نمایاں ہے۔ عظمیٰ بخاری کا سندھ کو "زمانہ قدیم” کہنا ایک سخت تنقید ہے، جبکہ شرجیل میمن کا پنجاب کے سیلاب کی پلاننگ پر سوال اٹھانا بھی اسی طرح کا جوابی وار ہے۔
سندھ کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی رہنما تنقید کے بجائے تعمیری مکالمے کی طرف بڑھیں۔ دونوں صوبوں کے درمیان مقابلہ بازی کے بجائے تعاون سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پنجاب کی زرعی پالیسیوں سے سندھ سیکھ سکتا ہے، جبکہ سندھ کے شہری ٹرانسپورٹ منصوبوں سے پنجاب مستفید ہو سکتا ہے۔
مستقبل کے لیے تجاویز
سندھ کی ترقی کے لیے چند اہم تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں:
- بنیادی ڈھانچے کی بہتری: سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں بجلی، پانی، اور سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
- شفاف عمل درآمد: ترقیاتی منصوبوں کے لیے شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے۔
- صنفی مساوات: خواتین کے لیے الیکٹرک اسکوٹیز جیسے منصوبوں کو بڑھایا جائے تاکہ خواتین کی معاشی اور سماجی ترقی ہو۔
- زرعی پالیسیوں کی مضبوطی: گندم کی پیداوار اور ذخیرہ اندوزی کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ غذائی تحفظ یقینی ہو۔
وزیراعلیٰ سندھ یونیسیف ملاقات: صحت، تعلیم اور شراکت داری پر اہم پیشرفت
عظمیٰ بخاری اور شرجیل میمن کے درمیان یہ مکالمہ سندھ کی ترقی کے حوالے سے کئی اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ جہاں عظمیٰ بخاری نے سندھ کی گورننس پر تنقید کی، وہیں شرجیل میمن نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کا دفاع کیا۔ دونوں رہنماؤں کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ صوبائی ترقی ایک پیچیدہ اور حساس موضوع ہے۔ سندھ کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی رہنما تنقید کے بجائے تعاون کی طرف بڑھیں اور صوبے کے شہریوں کی فلاح کے لیے مل کر کام کریں۔