بھارت کی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی بار بار خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سامنے آئی ہے، جب بھارت نے اچانک دریائے چناب میں مزید پانی چھوڑ دیا جس سے پاکستان میں غیر معمولی سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی۔
پاکستان کا ردعمل
وفاقی وزیر آبی وسائل میاں معین وٹو نے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ بھارت کی اس حرکت سے پاکستان کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی اچانک چھوڑنے سے انفرا اسٹرکچر، کھڑی فصلیں اور ہزاروں دیہات براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ معین وٹو کے مطابق پاکستان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر اقدامات کرے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اقوام متحدہ سے بھی رجوع کیا جائے گا۔
معاہدے کی خلاف ورزی کے اثرات
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور دریائے چناب سمیت دیگر دریا کھیتوں کی سیرابی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑنے سے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیلابی ریلے پل، سڑکیں اور گاؤں بہا لے جاتے ہیں، جس سے انسانی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔
سیلابی صورتحال اور جانی نقصان
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کی رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب میں اب تک 43 شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 33 لاکھ سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 12 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اور تقریباً 8 لاکھ جانوروں کو بھی بچایا گیا۔

ڈیموں کی صورتحال
پاکستان کے بڑے ڈیمز اپنی گنجائش تک بھر چکے ہیں۔ تربیلا ڈیم 100 فیصد، منگلا ڈیم 83 فیصد تک بھر چکا ہے۔ اسی طرح بھارت کی طرف سے بھاکڑا ڈیم 84 فیصد، پونگ ڈیم 98 فیصد اور تھین ڈیم 92 فیصد تک بھر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت دانستہ طور پر ایسے وقت پانی چھوڑتا ہے جب بارشیں زوروں پر ہوں تاکہ پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچے۔
سفارتی اور قانونی پہلو
سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو دریائے چناب کے پانی پر کوئی یکطرفہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ تاہم وہ بار بار سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور انڈس واٹر کمیشن کے بجائے سفارتی ذرائع سے اطلاع دیتا ہے۔ پاکستان کے مطابق پیشگی اطلاع دی جائے تو حفاظتی اقدامات کیے جا سکتے ہیں، مگر اچانک اطلاع سے صرف تباہی بڑھتی ہے۔
سماجی مسائل اور چوریاں
قصور کے علاقے پھول نگر میں سیلاب متاثرین کو ایک اور مسئلے کا سامنا ہے۔ متاثرین کے خالی گھروں اور زمینوں پر چوریاں ہونے لگیں۔ سولر پلیٹیں، انورٹرز اور گندم کے ذخائر چوری ہو رہے ہیں۔ مقامی افراد نے ایک چور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا لیکن متاثرین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کی جائیداد اور سامان کی حفاظت یقینی بنائے۔
پاکستان کی حکمت عملی
وفاقی وزیر آبی وسائل نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے حق کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائے گا۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت پہلے ہی پاکستان کے مؤقف کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔ اگر بھارت کی یہ روش برقرار رہی تو پاکستان کے پاس اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر جانے کا حق محفوظ ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ معاملہ صرف پانی کا نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کی زندگی اور معیشت کا ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس معاملے پر توجہ نہ دی تو خطے میں ایک بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔
بھارت کا پاکستان کو بڑے سیلابی خطرے کا الرٹ،ترجمان دفترِ خارجہ