پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال: بڑھتا رجحان اور ماحولیاتی چیلنجز
پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ اور لوڈشیڈنگ نے عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ متبادل ذرائع توانائی تلاش کریں۔ ان میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والا ذریعہ پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال ہے۔ گھروں کی چھتوں پر سولر سسٹم کی تنصیب سے لے کر بڑے پیمانے پر بنائے گئے سولر پارکس تک، یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن ماہرین ماحولیات خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ نظام مستقبل میں ایک بڑے ماحولیاتی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال کیوں بڑھ رہا ہے؟
پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال کئی وجوہات کی بنا پر تیزی سے بڑھ رہا ہے:
بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ
لوڈشیڈنگ سے نجات کی خواہش
ماحول دوست توانائی کا رجحان
حکومت کی جانب سے سولرائزیشن پالیسی اور سبسڈی
اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ چند سالوں میں پاکستان نے لاکھوں سولر پینلز اور ہزاروں میگاواٹ گنجائش رکھنے والی بیٹریاں درآمد کی ہیں۔
ماہرین کی وارننگ: ماحولیاتی خطرات
ماہر ماحولیات ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق اگر سولر پینلز طوفانی بارشوں یا سیلاب میں ڈوب جائیں تو ان کے سلیکون خلیے ٹوٹ جاتے ہیں اور برقی کنکشن ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ بیٹریوں کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر لیڈ ایسڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں ناکارہ ہونے پر زہریلے کیمیکلز خارج کرتی ہیں جو مٹی اور پانی کو آلودہ کر کے انسانوں میں جگر، گردے اور جلد کے امراض پیدا کر سکتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر ابھی سے پالیسی نہ بنائی گئی تو پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال موجودہ الیکٹرانک ویسٹ کی طرح ایک نیا بحران بن سکتا ہے۔
ای ویسٹ کا دباؤ
پاکستان پہلے ہی ای ویسٹ کے دباؤ کا شکار ہے۔ دی گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً چار لاکھ ٹن برقی آلات کا کچرا پیدا ہوتا ہے، جن میں موبائل فون، کمپیوٹر اور فریج شامل ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں یہ کچرا غیر رسمی کباڑ بازاروں میں غیر محفوظ طریقوں سے تلف کیا جاتا ہے۔
اگر اس صورتحال کو سولر ویسٹ بھی بڑھا دے تو مسائل کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ اس لیے پاکستان میں سولر پینلز کے استعمال کے ساتھ ساتھ ویسٹ مینجمنٹ کو بھی ترجیح دینا ہوگی۔
اربن مائننگ: ایک ممکنہ حل
سابق جیولوجسٹ ڈاکٹر نعیم مصطفی کے مطابق اس مسئلے کا ایک حل اربن مائننگ ہے، یعنی شہروں میں پھینکے گئے ناکارہ آلات سے قیمتی دھاتیں محفوظ طریقے سے نکالی جائیں۔ اگر پاکستان میں یہ عمل منظم ہو تو نہ صرف معیشت کو فائدہ ہوگا بلکہ ماحول بھی محفوظ رہے گا۔
حکومتی اقدامات اور کمزوریاں
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز کے مطابق اس وقت پاکستان میں ای ویسٹ مینجمنٹ کی کوئی جامع پالیسی نہیں ہے۔ تاہم سولر تنصیبات کے لیے نئے حفاظتی معیارات ضرور متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ پینلز بارش اور ہوا کے اثرات برداشت کر سکیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں اور فوری طور پر پاکستان میں سولر پینلز کے استعمال سے جڑے فضلے کے لیے واضح حکمت عملی بنانا ہوگی۔
کاروباری برادری کا مطالبہ
سولر پینلز کے امپورٹر میاں عبدالخالق نے کہا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر سولر ویسٹ مینجمنٹ پالیسی اور ری سائیکلنگ ڈھانچہ قائم کرنا ہوگا۔ ناکارہ پینلز اور بیٹریوں سے ایلومینیم، تانبا اور سلکان دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ری سائیکلنگ مراکز بنانا ہوں گے۔ اگر سرمایہ کاروں کو ٹیکس مراعات دی جائیں تو وہ اس شعبے میں دلچسپی لیں گے اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
عالمی مثالیں
یورپی یونین میں ویسٹ الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانک ایکوئپمنٹ ڈائریکٹو (WEEE) سختی سے نافذ ہے۔ جاپان میں بھی ری سائیکلنگ کے واضح قوانین موجود ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں اس حوالے سے ضابطہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ پاکستان بیسل کنونشن کا حصہ ہے جو خطرناک کچرے کی سرحد پار منتقلی کو ریگولیٹ کرتا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد انتہائی کمزور ہے۔
ماہرین کی تجاویز
ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق حکومت کو "ایکسٹینڈڈ پروڈیوسر ریسپانسبلٹی” (EPR) اپنانا ہوگا تاکہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کے بعد از استعمال مرحلے کی ذمہ دار ہوں۔ اگر یہ نظام قائم ہو تو نہ صرف ماحول محفوظ ہوگا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ماہرین اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال صرف اسی وقت کامیاب ہوگا جب ہم ان کے فضلے کو محفوظ طریقے سے منیج کریں گے۔
چین سے سولر پینلز کی درآمد مہنگی ہونے کا خدشہ، صارفین اور مارکیٹ پریشان
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال توانائی کے بحران کا بہترین حل ہے۔ لیکن اگر ماحولیاتی پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا تو یہ متبادل نظام اپنے ہی فوائد کھو بیٹھے گا۔ اس لیے حکومت، صنعت اور عوام سب کو مل کر اس نئے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان صاف اور پائیدار توانائی کے خواب کو حقیقت میں بدل سکے۔