مانیٹری پالیسی کا اعلان
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی جاری کردی ہے، جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار رہے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی زیرِ صدارت مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کا اجلاس ہوا جس میں ملکی معیشت، مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور مالیاتی چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

فیصلہ کیوں کیا گیا؟
کمیٹی نے موجودہ اقتصادی حالات کو دیکھتے ہوئے شرح سود میں تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا ہے جب ملک میں مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی دیکھی جا رہی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم ہو رہے ہیں۔
معیشت پر اثرات
شرح سود 11 فیصد برقرار رکھنے سے ایک جانب بینکنگ سیکٹر کو استحکام ملے گا جبکہ دوسری جانب کاروباری طبقے کو بھی اپنی سرمایہ کاری کے فیصلوں میں اعتماد حاصل ہوگا۔ تاہم، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بلند شرح سود چھوٹے کاروباروں اور انڈسٹری پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔
کاروباری طبقے کا ردعمل
چیمبر آف کامرس اور مختلف بزنس فورمز نے کہا ہے کہ شرح سود کو مزید کم کرنے کی ضرورت تھی تاکہ انڈسٹریل سیکٹر کو سہولت مل سکے۔ ان کے مطابق، اگر شرح سود کو 9 یا 10 فیصد پر لایا جاتا تو معیشت میں مزید تیزی آسکتی تھی۔
ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے محتاط پالیسی اختیار کی ہے کیونکہ عالمی سطح پر بھی مہنگائی اور سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ جاری ہے۔ لہٰذا، موجودہ حالات میں شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنا ایک محفوظ قدم ہے۔
مہنگائی اور عوام پر اثر
شرح سود میں کمی نہ ہونے کے باعث بینکوں کے قرضے اور اقساط مہنگی ہی رہیں گی، جس سے عام شہری کو فوری ریلیف نہیں ملے گا۔ تاہم، ماہرین کے مطابق اگر مالیاتی ڈسپلن برقرار رہا تو اگلے اجلاس میں شرح سود میں کمی کا امکان بڑھ سکتا ہے۔
مستقبل کے امکانات
اسٹیٹ بینک نے عندیہ دیا ہے کہ اگر مہنگائی مزید کم ہوئی اور زرمبادلہ کی پوزیشن بہتر رہی تو آئندہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں کمی کی جا سکتی ہے۔
مہنگائی کے خلاف نئی حکمت عملی؟ اسٹیٹ بینک نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھ دی