اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ – عدالت کا سخت نوٹس اور انتظامیہ کے لیے وارننگ
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ ایک عرصے سے شہریوں کے لیے خطرے اور پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں اس مسئلے نے ایک نئی قانونی شکل اختیار کر لی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے آوارہ کتوں کے مبینہ قتل کے معاملے پر سخت نوٹس لیا۔ عدالت نے واضح ہدایت دی ہے کہ اگر آوارہ کتوں کو مارنے کی تصدیق ہوئی تو اسلام آباد کی انتظامیہ کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اس فیصلے نے نہ صرف شہری حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے بلکہ ماحولیاتی اور جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کر لی ہے۔
عدالتی کارروائی اور پس منظر
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ نیا نہیں ہے، لیکن 9 اکتوبر کو ایک واقعہ منظر عام پر آیا جب ایک عینی شاہد خاتون نے عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے سی ڈی اے کے دفتر کے قریب ایک گاڑی میں درجنوں مردہ کتوں کو دیکھا۔ اس بیان کے بعد عدالت نے میونسپل کارپوریشن اسلام آباد (MCI) اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی آوارہ کتوں کو مارنے کا سلسلہ جاری ہے تو یہ غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام ہے، جس پر اسلام آباد کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔
یہ کارروائی اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ صرف صحتِ عامہ یا شہری سلامتی کا نہیں رہا بلکہ یہ انسانی اور قانونی حقوق کے زمرے میں بھی آ چکا ہے۔
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ – ایک پیچیدہ صورتحال
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ کئی جہتوں کا حامل ہے۔ ایک طرف شہریوں کو ان کتوں کے کاٹنے، حملوں اور بیماریوں جیسے ریبیز (Rabies) کے خطرات لاحق ہیں، تو دوسری طرف جانوروں کے حقوق کے کارکنان ان کے قتل کو ظلم قرار دیتے ہیں۔ شہر کی گلیوں، پارکوں اور رہائشی علاقوں میں آوارہ کتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ ویسٹ مینجمنٹ کا ناقص نظام، سڑکوں پر کھلا کوڑا اور غیر منظم افزائش ہے۔ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب ان کی تعداد اسکولوں، ہسپتالوں اور مارکیٹوں کے قریب بڑھنے لگتی ہے، جس سے شہریوں خصوصاً بچوں اور بزرگوں کے لیے خطرہ پیدا ہوتا ہے۔
حکومتی اداروں کا مؤقف
CDA اور MCI حکام کا مؤقف ہے کہ وہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کے مسئلے سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، پچھلے کچھ عرصے سے ریبیز سے متاثرہ کتوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کئی شہری زخمی ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ صرف خطرناک کتوں کو قابو میں لانے یا ری ہیبیلیٹ کرنے کے اقدامات کر رہی ہے، انہیں بلاوجہ قتل نہیں کیا جا رہا۔
تاہم عدالت کا کہنا ہے کہ اگر کسی قسم کی غیر قانونی ہلاکت ثابت ہوئی تو یہ آئین اور جانوروں کے تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ اگرچہ حقیقی ہے، مگر اس کا حل انسانی ہمدردی اور سائنسی بنیادوں پر ہونا چاہیے، نہ کہ محض کتوں کو مار دینے سے۔
جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کا ردِعمل
جانوروں کے حقوق کی تنظیموں اور این جی اوز نے بھی اسلام آباد میں آوارہ کتوں کے مسئلے پر اپنا مؤقف واضح کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مارنے کے بجائے ویکسینیشن، نیوٹرلائزیشن (neutering) اور محفوظ پناہ گاہوں کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ ان کے مطابق، کئی ممالک نے ایسے پروگراموں کے ذریعے آوارہ کتوں کی آبادی پر مؤثر کنٹرول حاصل کیا ہے۔
یہ تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اگر اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ واقعی حل کرنا ہے تو اس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں عوام، حکومت اور ماہرینِ حیوانیات سب شامل ہوں۔
عوامی رائے اور میڈیا کا کردار
اسلام آباد کے شہریوں میں اس مسئلے پر رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ دوسرے لوگ اسے انسانی ہمدردی کے دائرے میں دیکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف مہمات چل رہی ہیں جن میں شہری انتظامیہ کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔
میڈیا نے بھی اس معاملے کو بھرپور کوریج دی ہے، جس کے نتیجے میں عدالت کو نوٹس لینا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے حساس معاملات میں متوازن رپورٹنگ ضروری ہے تاکہ ایک طرف عوامی تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور دوسری طرف جانوروں کے ساتھ ظلم نہ ہو۔
ممکنہ حل اور آئندہ کا لائحہ عمل
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے ماہرین چند تجاویز دیتے ہیں:
آوارہ کتوں کی رجسٹریشن اور ویکسینیشن کے لیے مہم چلائی جائے۔
کتوں کے لیے محفوظ شیلٹرز قائم کیے جائیں۔
ریبیز ویکسین کی فراہمی بڑھائی جائے تاکہ انسانی جانوں کو خطرہ نہ ہو۔
کوڑے کرکٹ کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ آوارہ کتوں کو خوراک کی فراہمی کم ہو۔
شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ وہ خود بھی ایسے کتوں سے نمٹنے میں محتاط رہیں۔
اگر یہ اقدامات بروقت کیے جائیں تو اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ بتدریج ختم کیا جا سکتا ہے، ورنہ یہ نہ صرف انسانی صحت بلکہ سماجی توازن کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
پنجاب میں ماحولیاتی کارروائی شروع سموگ اور دھوئیں کے خلاف حکومتی ایکشن
اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت ایک مثبت قدم ہے جو حکومت کو یاد دلاتی ہے کہ شہری تحفظ کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق بھی اہم ہیں۔ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کا مسئلہ اس وقت سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے، مگر اگر انسانی ہمدردی، قانون اور سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جائیں تو یہ مسئلہ پائیدار طریقے سے حل ہو سکتا ہے۔ عدالت کے نوٹس نے انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے، اور اب دیکھنا یہ ہے کہ عملی طور پر اس مسئلے کا کس طرح سدباب کیا جاتا ہے۔
Comments 1