چینی بحران: حکومت نے 2 شوگر ڈیلرز کو ایئرپورٹ سے واپس بھجوا دیا، ای سی ایل میں نام شامل
ملک میں چینی بحران اور شوگر ڈیلرز پر حکومتی شکنجہ: 2 ڈیلرز کا بیرون ملک سفر روکا گیا
چینی بحران شدت اختیار کر گیا، حکومت ایکشن میں آ گئی
پاکستان میں جاری چینی بحران نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور غیر قانونی ایکسپورٹ کے الزامات کے بعد حکومت نے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے شوگر مافیا کے خلاف شکنجہ کس دیا ہے۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں 2 شوگر ڈیلرز کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب ملک بھر میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ایئرپورٹس پر کارروائی: دو شوگر ڈیلرز کو روکا گیا
ذرائع کے مطابق ایک شوگر ڈیلر لاہور ایئرپورٹ سے ملائیشیا روانہ ہونے والا تھا جب کہ دوسرا ڈیلر کراچی ایئرپورٹ سے دبئی کے لیے روانگی کی تیاری میں تھا۔ امیگریشن حکام نے دونوں افراد کو ایئرپورٹس پر روک کر مطلع کیا کہ ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں شامل ہیں اور وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
ای سی ایل میں شامل دیگر نام
ذرائع شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق اب تک 15 سے زائد بڑے شوگر ڈیلرز کے نام ای سی ایل میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر چینی ایکسپورٹ کر کے ملک میں قلت پیدا کی، جس سے قیمتوں میں شدید اضافہ ہوا اور عام آدمی متاثر ہوا۔
شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کا ردعمل
شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن نے حکومت کے اس اقدام پر سخت ردعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"ہم باعزت کاروباری لوگ ہیں، ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ مشاورت کرے نہ کہ ہمارے نام ای سی ایل میں شامل کر کے ہمیں مجرم بنا دے۔”
ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے تمام ممبران کے نام فوری طور پر ای سی ایل سے نکالے جائیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔
چینی بحران کی وجوہات
پاکستان میں چینی بحران کی کئی وجوہات ہیں جن پر ماہرین معاشیات اور حکومتی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں:
1. ناجائز برآمدات
حکومت کے مطابق بعض شوگر ملز اور ڈیلرز نے مارکیٹ میں طلب کے باوجود چینی کو بیرون ملک ایکسپورٹ کیا، جس سے ملکی مارکیٹ میں شدید قلت پیدا ہوئی۔
2. ذخیرہ اندوزی
چینی کو ذخیرہ کر کے منافع خوری کی کوششیں کی گئیں، جس سے قیمتیں مزید بڑھ گئیں۔
3. پیداوار میں کمی
رواں سیزن میں گنے کی پیداوار میں کمی اور کرشنگ میں تاخیر بھی بحران کی ایک بڑی وجہ بتائی جا رہی ہے۔
حکومت کے اقدامات
حکومت نے بحران پر قابو پانے کے لیے متعدد اہم فیصلے کیے ہیں:
- ای سی ایل میں شوگر ڈیلرز کے نام شامل کرنا
- درآمد کی اجازت دینے پر غور
- ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا اعلان
- مارکیٹ مانیٹرنگ سخت کرنا
وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں بھی چینی بحران پر تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے اور وزیر اعظم نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ملوث افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
عوامی ردعمل
عام عوام نے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء پہلے ہی مہنگی ہیں، اب چینی کی قیمت میں اضافہ ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
قانونی پہلو
ای سی ایل میں نام شامل کرنا ایک سنجیدہ اقدام ہے جو عام طور پر دہشت گردی، کرپشن یا قومی مفاد سے متصادم جرائم میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر حکومت واقعی چینی بحران کو قومی مفاد کا مسئلہ سمجھ رہی ہے تو یہ ایک بڑی پالیسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
چینی بحران صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں بلکہ قانونی، سیاسی اور سماجی سطح پر ایک چیلنج بن چکا ہے۔ حکومت کا اقدام اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے مگر اسے شفاف اور میرٹ پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ بے گناہ افراد متاثر نہ ہوں۔


