سوات زلزلہ: 5.2 شدت کے جھٹکوں سے خوف و ہراس، عوام گھروں سے باہر نکل آئے
سوات اور گردونواح میں زلزلے کے شدید جھٹکے: خوف و ہراس کی فضا، اللہ سے مدد کی فریاد
سوات اور اس کے مضافات میں اچانک زمین لرز اٹھی، جب زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اس قدرتی آفت کے اچانک حملے نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا، لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں، دکانوں، دفاتر اور دیگر عمارتوں سے باہر نکل آئے۔
زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5.2 ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس کی زیرِ زمین گہرائی 20 کلومیٹر اور مرکز افغانستان بتایا گیا ہے۔ اس جھٹکے کو اسلام آباد، مالاکنڈ، شانگلہ، بونیر، ایبٹ آباد اور پشاور سمیت دیگر علاقوں میں بھی محسوس کیا گیا۔
خوفناک لمحے – زمین کی گرج، دیواروں کی لرزش
زلزلے کا وقت دن کا وہ حصہ تھا جب بیشتر لوگ اپنے روزمرہ معمولات میں مصروف تھے۔ دفاتر میں کام ہو رہا تھا، دکانیں کھلی تھیں، بچے اسکولوں سے واپس آ چکے تھے۔ اچانک زمین لرزنے لگی، کھڑکیوں کے شیشے بجنے لگے، پنکھے ہلنے لگے، اور کچھ عمارتوں کی دیواروں میں معمولی دراڑیں پڑ گئیں۔
ایسے میں لوگوں کو صرف ایک ہی چیز یاد آئی — اللہ کا ذکر۔ خواتین، بزرگ، نوجوان سبھی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے کھلے میدانوں اور سڑکوں پر نکل آئے۔ کچھ لوگوں نے فوری طور پر اپنے عزیز و اقارب کو فون کرکے خیریت دریافت کی۔
ماہرین کی رائے: کیوں آتے ہیں زلزلے؟
ماہرینِ ارضیات کے مطابق، پاکستان کا شمالی اور مغربی خطہ، خاص طور پر خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، بلوچستان، اور اسلام آباد، زلزلوں کے لحاظ سے حساس ترین زون میں شامل ہے۔ یہ علاقہ یوریشین اور انڈین ٹیکٹونک پلیٹس کے سنگم پر واقع ہے، جہاں دونوں پلیٹس کی باہمی حرکت زمین میں توانائی پیدا کرتی ہے جو زلزلے کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 5.2 شدت کا زلزلہ درمیانی شدت کا زمرہ رکھتا ہے، مگر اگر مرکز سطح کے قریب ہو یا عمارتیں غیر محفوظ ہوں تو معمولی شدت بھی تباہی لا سکتی ہے۔
نقصانات کی ابتدائی اطلاعات
تاحال کسی جانی یا مالی نقصان کی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی، تاہم بعض دیہی علاقوں سے چھتوں میں دراڑیں پڑنے، اور کچھ کمزور دیواروں کے گرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ریسکیو 1122 اور ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو الرٹ کر دیا گیا ہے تاکہ اگر کسی بھی قسم کا نقصان سامنے آئے تو فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کی جا سکیں۔
عوامی ردعمل: خوف، دعا اور احتیاط
زلزلے کے بعد عوامی ردعمل نہایت جذباتی اور فطری تھا۔ گھبراہٹ میں لوگ دروازے، کھڑکیاں اور سامان چھوڑ کر باہر نکلے۔ سوشل میڈیا پر بھی فوری طور پر "زلزلہ” ٹرینڈ کرنے لگا، اور لوگ اپنے تجربات، ویڈیوز اور دعاؤں کے پیغامات شیئر کرنے لگے۔
کچھ شہریوں نے شکایت کی کہ کچھ سرکاری عمارتوں میں ایمرجنسی انخلاء کے راستے واضح نہیں تھے، جس سے وہاں کام کرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں اب بھی قدرتی آفات کے لیے مکمل تیار نہیں ہیں۔
حکومت اور انتظامیہ کا ردعمل
زلزلے کے بعد ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے فوری طور پر متحرک ہو گئے۔ سوات اور قریبی علاقوں میں امدادی ٹیموں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے بھی زلزلے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے عوام کو افواہوں سے بچنے اور مستند ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر کی عمارتوں کی فوری جانچ کی جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے۔
زلزلے کے دوران احتیاطی تدابیر – عوامی آگاہی کی ضرورت
پاکستان جیسے زلزلہ زدہ ملک میں عوامی آگاہی انتہائی اہم ہے۔ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ زلزلے کے وقت کیا کرنا ہے۔ اس حوالے سے چند بنیادی احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں:
اگر آپ گھر کے اندر ہیں تو کسی مضبوط میز کے نیچے چھپ جائیں۔
کھڑکیوں اور الماریوں سے دور رہیں تاکہ ٹوٹنے والے شیشے نقصان نہ پہنچائیں۔
سیڑھیوں یا لفٹ کا استعمال ہرگز نہ کریں۔
اگر باہر ہیں تو کھلے میدان میں رہیں، بجلی کے کھمبوں یا عمارتوں سے دور رہیں۔
زلزلے کے بعد گیس، پانی اور بجلی کے کنکشن بند کر دیں تاکہ کسی حادثے سے بچا جا سکے۔
ماضی کی تلخ یادیں
پاکستان کی تاریخ میں کئی زلزلے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں، جن میں سب سے بڑا اور ہولناک واقعہ 2005 کا زلزلہ تھا، جس میں 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بھی 2015 اور 2021 میں زلزلے آئے جنہوں نے کئی علاقوں کو متاثر کیا۔
یہ حالیہ زلزلہ ان تلخ یادوں کو تازہ کر گیا اور عوام کو ایک بار پھر اس قدرتی آفت کی سنگینی کا احساس دلایا۔
میڈیا کا کردار – معلومات یا خوف؟
زلزلے کے فوراً بعد متعدد ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں۔ بعض نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور مستند معلومات فراہم کیں، جبکہ چند نے سنسنی خیزی کو ترجیح دی، جس سے عوام میں غیر ضروری خوف پھیل گیا۔
یہ میڈیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ قدرتی آفات کے وقت ان کا کردار صرف اطلاع دینے تک محدود نہیں بلکہ لوگوں کی رہنمائی اور افواہوں کی روک تھام بھی ان کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
قدرتی آفات کے لیے تیار رہنا ہوگا
سوات اور گردونواح میں آنے والا زلزلہ ایک مرتبہ پھر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم قدرت کے سامنے بے بس ہیں۔ تاہم، مکمل بے بس نہیں — ہم تیاری، شعور اور حفاظتی اقدامات کے ذریعے ان آفات کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ:
تعلیمی اداروں میں زلزلہ تربیتی پروگرامز کرائے جائیں،
عمارتوں کی تعمیر میں زلزلہ مزاحم ڈیزائن لازمی قرار دیا جائے،
اور عوامی آگاہی مہمات باقاعدگی سے چلائی جائیں۔
زلزلے سے بچا نہیں جا سکتا، مگر اس کے نقصان کو ضرور کم کیا جا سکتا ہے — اگر ہم سنجیدگی سے تیاری کریں۔
