توشہ خانہ کیس میں سابق ملٹری سیکرٹری کا بیان: عمران خان اور بشریٰ بی بی نے تحائف جمع نہ کرائے
توشہ خانہ ٹو کیس: سابق ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر (ر) محمد احمد کا اہم انکشاف – بلغاری جیولری سیٹ کا معاملہ منظرعام پر
پاکستان کی سیاست اور عدالتی تاریخ میں "توشہ خانہ کیس” پہلے ہی اہمیت اختیار کر چکا تھا، لیکن توشہ خانہ ٹو کیس نے اس میں ایک نیا موڑ پیدا کر دیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزامات کی شدت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب سابق ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر (ر) محمد احمد نے عدالت میں تفصیلی بیان ریکارڈ کروا دیا، جس میں انہوں نے کئی اہم حقائق سے پردہ اٹھایا۔
بریگیڈیئر (ر) محمد احمد کا پسِ منظر
سابق ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد احمد نے عدالت میں اپنے بیان میں بتایا کہ وہ 15 مئی 2020 سے 10 اپریل 2022 تک بطور ملٹری سیکرٹری خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے متعدد بیرونی دوروں میں شرکت کی، جن میں 7 مئی 2021 سے 10 مئی 2021 تک کا دورہ سعودی عرب بھی شامل ہے۔ اس دوران ملنے والے تحائف، خاص طور پر بلغاری جیولری سیٹ، اب عدالتی و قانونی معاملات کا مرکز بن چکا ہے۔
تحائف کی عدم رجسٹریشن: بریگیڈیئر (ر) احمد کا انکشاف
اپنے عدالتی بیان میں بریگیڈیئر (ر) محمد احمد نے کہا کہ سعودی عرب کے ولی عہد کی جانب سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو دیے گئے قیمتی تحائف توشہ خانہ میں رجسٹر نہیں کروائے گئے۔ ان کے مطابق:
عمران خان اور بشریٰ بی بی نے انہیں تحائف توشہ خانہ میں جمع نہ کرانے کا کہا۔
ان تحائف میں بلغاری جیولری سیٹ، عود کی بوتلیں، زیتون کا تیل، کھجور اور ایک کتاب شامل تھی۔
تمام تحائف کی سرکاری پروٹوکول کے مطابق تصاویر بھی بنائی گئیں۔
وزارتِ خارجہ نے ان تحائف کے حوالے سے وزیراعظم آفس کو تحریری اطلاع بھی دی۔
یہ اعتراف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قاعدے اور قانون کے مطابق غیر ملکی دوروں میں ملنے والے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروانا لازم ہے، چاہے وہ تحفہ ذاتی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو۔
توشہ خانہ کے طریقہ کار کی وضاحت
اپنے بیان میں بریگیڈیئر (ر) محمد احمد نے وضاحت کی کہ توشہ خانہ، کابینہ ڈویژن کے ماتحت ادارہ ہے اور تمام تحائف کی رسیدگی، قیمت کا تعین اور قانونی طریقہ کار اسی ڈویژن کے تحت ہوتا ہے۔ ان کے مطابق:
سعودی ولی عہد سے ملنے والے تحائف کی مالیت 29 لاکھ 14 ہزار 500 روپے لگائی گئی۔
بشریٰ بی بی کی جانب سے اس مالیت کے مطابق رقم جمع کروائی گئی۔
یہ تمام خط و کتابت ڈپٹی ملٹری سیکرٹری نے عمران خان کی ہدایت پر انجام دی۔
توشہ خانہ کی طرف سے کسی بھی قسم کا اعتراض سامنے نہیں آیا۔
یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ سرکاری طریقہ کار کے مطابق تحائف کی اصل مالیت کے تعین میں غیر جانبدار اپریزر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کا مؤقف: جیولری سیٹ کی قیمت میں دھوکہ دہی؟
ایف آئی اے حکام کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق:
جس بلغاری جیولری سیٹ کی سرکاری مالیت 29 لاکھ روپے لگائی گئی، اس کی اصل قیمت ساڑھے 7 کروڑ روپے تھی۔
جیولری سیٹ میں نیکلیس، بریسلیٹ، انگوٹھی اور ائیررنگز شامل تھے۔
قیمت کا تعین ایک پرائیویٹ اپریزر صہیب عباسی سے کروایا گیا، جس نے صرف 59 لاکھ روپے مالیت بتائی۔
اس میں سے صرف 29 لاکھ روپے خزانے میں جمع کروائے گئے، جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف قیمت کم لگوائی گئی بلکہ بقیہ رقم جمع نہیں کی گئی۔
یہ نقطہ کیس کے لیے اہم ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر جان بوجھ کر کم قیمت لگوا کر تحفہ ذاتی ملکیت میں شامل کیا گیا ہو، تو یہ اختیارات کا ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔
دیگر گواہان کے بیانات: شواہد کا تسلسل
توشہ خانہ ٹو کیس میں دو دیگر اہم گواہان کے بیانات بھی سامنے آ چکے ہیں:
انعام اللہ خان (عمران خان کے سابق پرسنل سیکریٹری):
ان کے بیان میں بھی توشہ خانہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کیا گیا۔
صہیب عباسی (پرائیویٹ اپریزر):
انہوں نے تسلیم کیا کہ جیولری سیٹ کی قیمت کم لگائی گئی تھی، جو کہ قانونی و اخلاقی طور پر ایک سنگین خلاف ورزی ہے۔
ان گواہان کے بیانات اور بریگیڈیئر (ر) محمد احمد کے بیان میں مطابقت موجود ہے، جو کہ کیس کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔
قانونی پہلو اور ممکنہ نتائج
اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ:
تحائف کو جان بوجھ کر توشہ خانہ میں ظاہر نہیں کیا گیا۔
قیمت کا تعین حقائق کے برخلاف کروایا گیا۔
قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔
تو سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو احتساب عدالت، نیب آرڈیننس اور قومی احتساب بیورو کے قانون کے تحت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن میں:
- قید و جرمانہ
- عوامی عہدے کے لیے نااہلی
- جائیداد کی ضبطی
وغیرہ شامل ہیں۔
سیاسی تناظر میں اہمیت
توشہ خانہ ٹو کیس ایک ایسے وقت میں منظرِ عام پر آیا ہے جب پاکستان کی سیاست دوبارہ انتخابی سرگرمیوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عمران خان پہلے ہی مختلف کیسز میں عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں، اور اس نئے بیان نے ان کی سیاسی ساکھ پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سیاسی حلقے اس کیس کو "توشہ اسکینڈل 2.0” قرار دے رہے ہیں، جو عمران خان کی "سادگی” اور "شفافیت” کے بیانیے سے متصادم نظر آتا ہے۔ مخالفین اسے "کرپشن کا کھلا ثبوت” قرار دے رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے اسے "سیاسی انتقام” کا نام دیا جا رہا ہے۔
عوامی ردعمل اور میڈیا کی کوریج
میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کیس کی کوریج میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ:
اگر قاعدے اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو کارروائی کیوں نہ ہو؟
کیا سابق وزیراعظم کو قانون کے تابع لایا جائے گا؟
کیا دیگر حکمرانوں کے لیے بھی یہی معیار اپنایا جائے گا؟
یہ تمام سوالات اس کیس کو محض عدالتی نہیں بلکہ قومی سطح کا احتساب بناتے ہیں۔
توشہ خانہ ٹو کیس – قانونی، اخلاقی اور سیاسی امتحان
بریگیڈیئر (ر) محمد احمد کا بیان، دیگر گواہان کے بیانات سے ہم آہنگ نظر آتا ہے اور قانونی نکتہ نگاہ سے کیس کو مضبوط بناتا ہے۔ توشہ خانہ، جو کبھی صرف ایک رسمی دفتر سمجھا جاتا تھا، آج قومی بحث کا مرکز بن چکا ہے۔
یہ کیس نہ صرف ایک سابق وزیراعظم کے کردار کا امتحان ہے، بلکہ یہ طے کرے گا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی واقعی قائم ہوتی ہے یا نہیں۔

Comments 1