ٹرمپ انتظامیہ کا نیا ویزا پالیسی فیصلہ — ذیابیطس اور موٹاپے کے مریضوں پر پابندی
ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ ایک بار پھر عالمی سطح پر بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب موٹاپے اور ذیابیطس میں مبتلا غیر ملکیوں کو امریکا کا ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔

یہ اقدام بظاہر صحت کے خطرات کم کرنے اور امریکا کے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے اٹھایا گیا ہے،
تاہم اس نے انسانی حقوق کے حلقوں اور عالمی اداروں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
فیصلے کی تفصیلات: نئی ویزا پالیسی کیا ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، دنیا بھر میں موجود امریکی سفارت خانوں کو ایک نیا سرکاری مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔
اس میں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے تمام افراد کی ویزا درخواستیں مسترد کر دی جائیں گی جو
- موٹاپے (Obesity)، یا
- ذیابیطس (Diabetes)
جیسے امراض میں مبتلا ہوں۔
یہ ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ امیگریشن پالیسی میں سختی کی ایک نئی مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسیوں کا پس منظر
یہ فیصلہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں متعارف کروائی گئی
سخت امیگریشن پالیسیوں کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ حکومت نے:
- متعدد مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی،
- پناہ گزینوں کی تعداد محدود کی،
- اور امیگریشن قوانین کو مزید سخت بنایا۔
اب، ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ ان اقدامات کی توسیع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے،
جس میں صحت کی بنیاد پر بھی ویزا مسترد کرنے کی پالیسی شامل کر لی گئی ہے۔
محکمہ خارجہ کا مؤقف: قومی مفاد کا تحفظ
امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا:
“یہ اقدام امریکا کے قومی مفاد اور صحتِ عامہ کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
موٹاپے اور ذیابیطس جیسے امراض سے متاثرہ افراد صحتی نظام پر بوجھ بن سکتے ہیں۔”
محکمہ خارجہ کے مطابق،
ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ
امریکا میں صحت کے معیار کو برقرار رکھنے اور معاشی بوجھ کم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
متاثرہ افراد اور عالمی ردعمل
عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور امیگریشن وکلاء نے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ:
“ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
یہ امیگریشن کے حوالے سے امتیازی رویے کو مزید بڑھا رہا ہے۔”
تنظیموں کا کہنا ہے کہ صحت کی بنیاد پر امیگریشن مسترد کرنا بین الاقوامی انسانی اصولوں کے منافی ہے،
کیونکہ موٹاپا اور ذیابیطس وہ بیماریاں ہیں جو عالمی سطح پر لاکھوں افراد کو متاثر کر رہی ہیں۔
عمل درآمد اور مستقبل کے اثرات
ابھی تک امریکی حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ
ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ کب سے نافذ العمل ہوگا۔
تاہم ابتدائی رپورٹس کے مطابق،
یہ پالیسی جلد ہی سفارتی سطح پر نافذ کر دی جائے گی۔
اس فیصلے سے خاص طور پر متاثر ہوں گے:
- ترقی پذیر ممالک کے شہری،
- بزرگ اور ذیابیطس کے مریض،
- اور وہ افراد جو امریکا میں علاج یا تعلیم کے لیے ویزا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا مؤقف
امریکی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق، امریکی آئین کے تحت امیگریشن پالیسی میں نسل، مذہب یا صحت کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔
اگر یہ فیصلہ برقرار رہا تو امریکا کی امیگریشن پالیسی مزید تنازعات کا شکار ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی ردعمل اور ممکنہ سفارتی اثرات
متعدد ممالک نے اس فیصلے کو “غیر منصفانہ” قرار دیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے ترجمان کے مطابق:
“موٹاپا یا ذیابیطس کے شکار افراد کو ویزا سے محروم کرنا
بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہے۔”
یہ اقدام امریکا کی امیگریشن شبیہ کو متاثر کر سکتا ہے
اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا کر سکتا ہے۔
ایک متنازع مگر تاریخی فیصلہ
ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔
جہاں امریکی حکومت اسے صحت و سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دے رہی ہے،
وہیں ناقدین کے نزدیک یہ امیگریشن کے امتیازی قوانین کا تسلسل ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات کے تحت 80 ہزار ویزے منسوخ
ماہرین کا کہنا ہے کہ
اگر اس فیصلے پر نظرِ ثانی نہ کی گئی تو یہ ہزاروں درخواست گزاروں کے لیے امید کے دروازے بند کر سکتا ہے۔










Comments 2