ٹرمپ کا یوٹرن، مودی کو دوست قرار دے کر بھارت امریکا تعلقات کو خاص رشتہ کہا
ٹرمپ کا یوٹرن اور مودی سے تعلقات میں نیا رخ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دنیا کو حیران کر دیا۔ حالیہ بیان میں انہوں نے بھارت اور امریکا کے تعلقات کو "بہت خاص” قرار دیا اور کہا کہ وہ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی "ہمیشہ دوست رہیں گے”۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب چند دن پہلے ہی ٹرمپ نے بھارت پر روس اور چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر تنقید کی تھی۔ اس تازہ بیان نے عالمی میڈیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ یہ ٹرمپ کا یوٹرن ہے یا سفارتی حکمت عملی؟
بھارت اور امریکا کے تعلقات کا نیا باب
ٹرمپ کے اس یوٹرن کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فوری ردعمل دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر کہا کہ صدر ٹرمپ کے جذبات اور خیالات کی وہ قدر کرتے ہیں۔ مودی نے کہا کہ بھارت اور امریکا کے درمیان تعلقات "انتہائی مثبت اور جامع اسٹریٹجک شراکت داری” پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق یہ رشتہ نہ صرف موجودہ دور بلکہ مستقبل کے لیے بھی اہم ہے۔
سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل
ٹرمپ کا یوٹرن (Trump’s U-turn) سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے دیکھنے کو ملے۔ کئی صارفین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ سیاست میں یوٹرن عام بات ہے، جبکہ کچھ نے ٹرمپ کے بیانات کو غیر سنجیدہ اور متضاد قرار دیا۔ بھارتی صارفین میں سے کچھ نے ٹرمپ اور مودی دونوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ بیانات صرف وقتی سیاسی فائدے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے پہلے بیانات اور تنقید
اس سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ "ہم نے بھارت اور روس کو چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔” یہ بیان بھارت کے لیے سخت مایوس کن تھا اور عالمی سطح پر بھی اس پر بحث چھڑ گئی تھی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہمارے پاس اس پر کچھ کہنے کے لیے نہیں ہے۔” لیکن چند دن بعد ٹرمپ کا یوٹرن ایک نئی کہانی بیان کرتا ہے۔
پیٹر ناوارو کا موقف اور تنازعہ
ٹرمپ کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو نے بھی بھارت کو ہدف بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اکثر حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں موڑ دیتا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے طنزیہ کہا کہ "بھارت میں روسی تیل سے برہمن مستفید ہو رہے ہیں۔” اس بیان پر بھارتی وزارت خارجہ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے "گمراہ کن اور بے بنیاد” قرار دیا۔
امریکا بھارت تعلقات میں تضاد
ٹرمپ کا یوٹرن اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات میں تسلسل کے بجائے تضاد نمایاں ہے۔ کبھی بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی "دوست” قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ رویہ امریکا کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی اور ٹرمپ کے ذاتی انداز سیاست کو ظاہر کرتا ہے۔
مودی کا ردعمل اور سیاسی فائدہ
بھارت میں مودی کے حامیوں نے ٹرمپ کے یوٹرن کو بھارت کی کامیاب سفارت کاری قرار دیا۔ ان کے مطابق بھارت اور امریکا کے تعلقات پہلے سے زیادہ مستحکم ہیں۔ لیکن اپوزیشن نے مودی پر تنقید کی کہ وہ امریکی سیاست میں ضرورت سے زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔
عالمی میڈیا کا تجزیہ
بین الاقوامی میڈیا نے ٹرمپ کے اس بیان کو ان کے مخصوص انداز سیاست کا حصہ قرار دیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اکثر سخت تنقید کے بعد نرمی دکھاتے ہیں تاکہ تعلقات کو خراب نہ کیا جائے۔ اس بار بھی ٹرمپ کا یوٹرن اسی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔
امریکی انتخابی سیاست اور بھارت
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یوٹرن امریکا کی انتخابی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ امریکا میں بھارتی نژاد ووٹرز کی بڑی تعداد ہے اور ٹرمپ ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ دوستانہ رویہ دکھا رہے ہیں۔ اس طرح کے بیانات انتخابی مہم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کا یوٹرن اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں بیانات ہمیشہ مستقل نہیں ہوتے۔ کبھی بھارت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی "ہمیشہ کا دوست” قرار دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں بھارت اور امریکا دونوں کو اپنے تعلقات کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
امریکا بھارت تجارتی جنگ : بھارت نے ٹیرف صفر کرنے کی پیشکش کی ہے، لیکن اب وقت گزر چکا، ٹرمپ
