متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات پر خطرہ: مغربی کنارے کا الحاق ’’ریڈ لائن‘‘
متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات کی موجودہ کشیدگی نے خطے کی سفارتی اور سیاسی خبروں میں ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ اماراتی حکام نے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل مغربی کنارے کو ضم کرنے کا اقدام کرتا ہے، تو متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات محدود کیے جاسکتے ہیں۔
پسِ منظر
٢٠٢٠ میں ابراہام معاہدہ طے پایا، جس کے تحت متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات باقاعدہ اور مکمل سفارتی نوعیت اختیار کرنے لگے تھے۔ یہ معاہدہ امریکہ کی ثالثی میں عمل میں آیا۔ اس دوران تجارتی، سفارتی اور ثقافتی رابطے بڑھ گئے تھے۔
الحاق کا معاملہ اور امارات کا موقف
امارات نے واضح کر دیا ہے کہ مغربی کنارے کا الحاق متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات کے لیے ریڈ لائن ہے۔ اگر اسرائیل نے یہ قدم اٹھایا، تو امارات اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلانے جیسے اقدامات پر غور کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات کو محدود کرنے کی تیاری ہے، اگر تل ابیب حکومت الحاق کے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹے۔
سفارتی اور تجارتی اثرات
گیارہ سال پہلے وقتی سرد مہری کے بعد، متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات میں سفارتی اور تجارتی شعبوں میں بہت کچھ بدلا ہے۔ مگر الحاق کی صورتِ حال نے ان تعلقات کو دوبارہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اماراتی دفاتر نے اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کو دبئی ایئر شو ۲۰۲۵ میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کیا، جو کہ متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات میں اعتماد کی کمزوری کی علامت ہے۔
سیاسی مفادات اور اسرائیلی داخلی پسِ منظر
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل سموٹریچ نے بیان دیا ہے کہ الحاق کے لیے نقشے تیار کیے جارہے ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت کو دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔ اس سے متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات پر دباؤ بڑھے گا کیونکہ امارات الحاق کو نہایت سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے، اور ممکن ہے کہ اسرائیلی حکمتِ عملی پر عالمی ردِعمل بھی بڑھے۔
امارات کا موقف اور خطے پر اثرات
امارات کا یہ موقف نہ صرف امارات اسرائیل تعلقات کو متاثر کر رہا ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال قائم کر رہا ہے۔ بحرین اور مراکش جیسے ممالک، جنہوں نے بھی ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے، اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر امارات نے اپنے سفیر کو واپس بلایا تو یہ دیگر عرب ممالک کے لیے بھی ایک پیغام ہوگا کہ وہ اسرائیل کے اقدامات کے خلاف سخت موقف اپنائیں۔
علاقائی اور عالمی ردِعمل
قطر میں مسلم ممالک کے ہنگامی اجلاس نے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی، اور امارات سمیت دیگر ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات کی صورتحال پر غور کریں اور ممکنہ سفارتی اور معاشی فیصلے کریں۔ امارات کے صدارتی مشیر انور قرقاش نے اسرائیلی فضائی حملے کو “غداری” قرار دیا، جس نے متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات پر حساسیت کو مزید بڑھایا ہے۔
امارات اسرائیل تعلقات اس وقت ایک نازک موڑ پر ہیں۔ مغربی کنارے کے الحاق کا ممکنہ فیصلہ اور غزہ جنگ کے اثرات نے دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری کو بڑھا دیا ہے۔ امارات نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے یکطرفہ اقدامات کو قبول نہیں کرے گا، اور دبئی ایئر شو سے اسرائیلی کمپنیوں کی پابندی اسی موقف کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ کیا اسرائیل اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتا ہے یا امارات اسرائیل تعلقات مزید کشیدگی کا شکار ہوتے ہیں۔
یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے سرگرم











Comments 1